EN | ES |

arz-27

arz-27


Javascript seems to be turned off, or there was a communication error. Turn on Javascript for more display options.

و در جمله : ( كذبوا باياتنا فاخذهم اللّه ) دو بار التفات به كار رفته ، اول التفاتى از غيبت به حضور ، و دوم التفاتى از حضور به غيبت . توضيح اينكه : در آيه قبل خداى تعالى غايب فرض شده بود و مى فرمود مال و اولادشان نمى تواند آنان را از خدا بى نياز كند . اس جهانِ رنگ و بو ميں شيطان كے حملوں سے بچتے هوئے شريعت ِالٰهيه كے مطابق زندگى گزارنا ايك انتهائى دشوار امر هے - مگر الله ربّ العزت نے اس كو همارے لئے يوں آسان بنا ديا كه ايمان كى محبت كو همارے دلوں ميں جاگزيں كرديا - سورة الحجرات ميں ارشادِ خداوندى هے : ﴿ وَلٰكِنَّ اللهَ حَبَّبَ إلَيْكُمُ الِايْمَانَ وَزَيَّنَه فِىْ قُلُوْبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْيَانَ ، اُوْلٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُوْنَ ( آيت نمبر ٧ ) " اور ليكن الله تعالىٰ نے ايمان كو تمهارے لئے محبوب بنا ديا اور اس كو تمهارے دلوں ميں سجا ديا اور كفر ، فسق اور نافرمانى كو تمهارے لئے ناپسنديده بنا ديا - يهى لوگ بهلائى پانے والے هيں - " اس آيت ميں ايمان كى محبت ميں حب ِالٰهى اور حب ِرسول بهى شامل هے - گويا حب ِرسول انعامِ خداوندى هے اورحب ِرسول همارے ايمان كا صرف حصه نهيں بلكه عين ايمان هے - حضرت انس بن مالك سے روايت هے كه رسول الله نے فرمايا : " تم ميں سے كوئى اس وقت تك موٴمن نهيں هوسكتا جب تك كه وه اپنى اولاد ، اپنے والدين اور باقى تمام لوگوں سے زياده مجه سے محبت نه كرتا هو - " ( بخارى و مسلم ) سورة الاحزاب ميں الله تعالىٰ نے فرمايا : ﴿ اَلنَّبِىُّ اَوْلٰى بِالْمُوٴمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ ( آيت نمبر ٦ ) " نبى موٴمنوں كے لئے ان كى اپنى جانوں سے بهى زياده مقدم هيں - " عبدالله بن هشام روايت كرتے هيں كه " حضرت عمر آنحضرت سے كهنے لگے : آپ ميرے لئے ، ميرى جان كے علاوه هر چيز سے زياده محبوب هيں - آپ نے فرمايا ! اس ذات كى قسم جس كے هاته ميں ميرى جان هے جب تك ميں تمهارے نزديك تمهارى جان سے بهى زياده محبوب نه هوجاؤں تم موٴمن نهيں هوسكتے - سيدنا عمر نے عرض كى : الله كى قسم ! اب آپ ميرے نزديك ميرى جان سے بهى زياده عزيز هيں تو آپنے فرمايا : اَب ، اے عمر ! ( يعنى اب تم صحيح مسلمان هو ) ( فتح البارى : ١ / ٥٩ ) سورئه توبه ، آيت نمبر ٢٤ ميں ارشادِ الٰهى هے : ﴿ قُلْ إنْ كَانَ اٰبَاؤكُمْ وَاَبْنَاءُ كم وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا اَحَبَّ إلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِىْ سَبِيْلِه فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى يَاْتِىَ اللهُ بِاَمْرِهِ " ( اے نبى ! مسلمانوں سے ) كهه ديجئے ! اگر تمهيں اپنے باپ ، اپنے بيٹے ، اپنے بهائى ، اپنى بيوياں ، اپنے كنبے والے اور وه اَموال جو تم نے كمائے هيں اور تجارت جس كے مندا پڑنے سے تم ڈرتے هو اور تمهارے مكان جو تمهيں پسند هيں ؛ الله ، اس كے رسول اور اس كى راه ميں جهاد كرنے سے زياده محبوب هيں تو انتظار كرو يهاں تك كه الله اپنا حكم لے آئے - " اس آيت ميں جن رشتوں كا ذكر كيا گيا هے ، ان سے انسان كو فطرى لگاؤ هوتا هے - اس لئے انهى چيزوں سے موٴمنوں كے ايمان كا امتحان ليا گيا هے - الله تعالىٰ واضح فرما رهے هيں كه جب الله اور اس كے رسول كى محبت ، ماں باپ اور ديگر عزيز و اقارب سے زياده هو تب ايمان كا دعوىٰ صحيح هوسكتا هے - اگر يه رشته دار اور كمائے هوئے مال اور دنيا كى زمين وجائيداد اور تجارت اور پسنديده مكانات خدا اور رسول اور جهاد فى سبيل الله سے زياده محبوب و مرغوب هيں تو خدا كے عذاب كا سامنا كرنے كے لئے تيار رهنا چاهئے - محبت ايك فطرى كشش كا نام هے ، ايك ايسا ميلانِ نفس جو هميشه پسنديده اور مرغوب چيزوں كى جانب هوا كرتا هے - يه محبت اگر قرابت دارى كى بنياد پر هو تو ' طبعى محبت ' كهلاتى هے اور اگر كسى كے جمال وكمال يا احسان كى و جه سے هو تو ' عقلى محبت ' كهلاتى هے اور اگر يه محبت مذهب كے رشتے كى بنياد پر هو تو ' روحانى محبت ' يا ' ايمان كى محبت ' كهلاتى هے - رسول اللها كے ساته ' محبت ِطبعى ' بهى هے جيسى اولاد كى محبت باپ سے هوتى هے كيونكه آنحضورا اُمت كے روحانى باپ هيں اور آپ كى ازواجِ مطهرات ' روحانى مائيں ' جيسا كه سورة الاحزاب ميں فرماياگيا : ﴿ وَاَزْوَاجُه اُمَّهَاتُهُمْ بعض شاذ قراء توں ميں هو أبوهم كا لفظ بهى آيا هے كه نبى كريم تمهارے والد كى جگه پر هيں - تو جس طرح حقيقى باپ سے محبت طبعى هے اسى طرح آپ سے محبت ايك مسلمان كے لئے بالكل فطرى امر هے - نبى كريم كا ظاهرى وباطنى كمال وجمال محبت كے اسباب ميں سے ايك سبب كمال بهى هے اور جمال بهى ، خواه ظاهرى هو يا باطنى - آپ كا كمال و جمال ظاهرى بهى تها اور باطنى بهى - شكل و صورت ميں بهى آپ سب سے حسين تهے ، جيسا كه حضرت جابر فرماتے هيں : " كان مثل الشمس والقمر ( مسنداحمد : ٥ / ١٠٤ ) آپ كا چهره آفتاب و ماهتاب جيسا تها - " ربيع بنت معوذ آپ كے بارے ميں فرماتى هيں : " لورأيت الشمس طالعة ( مجمع الزوائد : ٨ / ٢٨٠ ) اگر تم رسول الله كو ديكهتے توايسے سمجهتي جيسے سورج نكل رها هے - " آپ كے باطنى جمال و كمال كا كيا كهنا ، آپ كو الله تعالىٰ نے خاتم النّبيين ، سيد المرسلين ، امام الاوّلين والآخرين اور رحمته للعالمين بنايا - آپ كے احسانات اُمت پر بے حد و حساب هيں بلكه آپ محسن انسانيت هيں - صاحب ِجمال و كمال كے ساته محبت ركهنا اور محبت كا هونا بهى لازمى امر هے - حضرت خديجته الكبرىٰ آپ كے پاكيزه اخلاق كے بارے ميں فرماتى هيں : ( پهلى وحى كے موقعه پر آپ كى دلجوئى كرتے هوئے فرمايا ) " آپ قرابت داروں سے سلوك كرنے والے ، درماندوں اور بے كسوں كو سوارى دينے والے ، ناداروں كو سرمايه دينے والے ، مهمانوں كى خدمت كرنے والے اور مصيبت زدگان كى اعانت كرنے والے هيں - " ( بخارى : كتاب بدء الوحى حديث ، رقم : ٣ ) تاريخ ميں بهت سے لوگ اپنے كمالات كى وجه سے مشهور هوئے - حاتم طائى ، اپنى سخاوت ؛ نوشيرواں اپنے عدل و انصاف ؛ سقراط و بقراط و افلاطون ، اپنى دانائى و حكمت كى بنا پر مرجع خلائق اور لائق محبت تهے - مگر آپ كے جمله كمالات ان سب سے كئى گنا بڑه كر تهے ، حتىٰ كه تمام انبيا ميں جو جو خوبياں تهيں ، وه تنها آنحضورا كى ذاتِ اقدس ميں تهيں - بقولِ شاعر حسن يوسف ، دم عيسىٰ ، يد بيضا دارى آنچه خوباں همه دارند ، تو تنها دارى ! رسول الله كے ساته سچى محبت كے كچه بديهى تقاضے هيں ، جن ميں سے كچه تو ايسے اُمور هيں جنهيں بجا لانا ضرورى هے اوركچه ايسے جن سے اجتناب ضرورى هے - ذيل ميں هم ان سب تقاضوں كو تفصيل سے بيان كرتے هيں : احترام و تعظيم رسول ع " ادب پهلا قرينه هے محبت كے قرينوں ميں - " حب ِ رسول كا لازمى اور اهم تقاضا احترامِ رسول هے - يه تو ايسى بارگاه هے جهاں حكم عدولى كى تو كيا گنجائش هوتى ، يهاں اونچى آواز سے بولنا بهى غارت گر ِايمان هے - سورة الحجرات كى ابتدائى چار آيات ميں آنحضورا كے ادب و احترام كے مختلف پهلو واضح فرمائے گئے هيں : " اے ايمان والو ! الله تعالىٰ اور اس كے رسول سے پيش قدمى نه كرو اور الله سے ڈرتے رهو ، بلا شبه الله تعالىٰ سب كچه جانتا هے - اے ايمان والو ! اپنى آوازيں نبى كى آواز سے بلند نه كرو اور نه هى ان كے سامنے اس طرح اونچى آواز سے بولو جيسے تم ايك دوسرے سے بولتے هو - ايسا نه هو كه تمهارے اعمال برباد هوجائيں اور تمهيں اس كى خبر بهى نه هو - بلاشبه جو لوگ رسول اللهاكے حضور اپنى آوازيں پست ركهتے هيں ، يهى لوگ هيں جن كے دلوں كو الله نے تقوىٰ كے لئے جانچ ليا هے ، ان كے لئے بخشش اور اجر عظيم هے - اے نبى ! جو لوگ آپ كو حجروں كے باهر سے پكارتے هيں ، ان ميں سے اكثر بے عقل هيں - اگر يه لوگ صبر كرتے تا آنكه آپ ان كى طرف خود نكلتے تو يه ان كے حق ميں بهتر تها اور الله بخشنے والا رحم فرمانے والا هے - " ( الحجرات : ١تا٤ ) ان آيات كے نزول كے بعد ايك صحابى ثابت بن قيس جن كى آواز قدرتى طور پربلند تهى ، ايمان ضائع هوجانے كے ڈر سے گهر ميں محصور هوكربيٹه گئے - آپ نے ان كے بارے ميں دريافت فرمايا اور جب آپ كو اصل صورتحال كا علم هوا تو ان كو پيغام بهجوايا كه " تم اهل دوزخ سے نهيں بلكه اهل جنت سے هو جب كه اس سے پهلے صحابى سے اس بارے ميں استفسار كيا گياتو انهوں نے يه جواب ديا تها : " ميرا بُرا حال هے ، ميرى آواز هى آنحضورا سے بلند هے ، ميرے تو اعمال اِكارت گئے اور ميں تو اهل دوزخ سے هوجاؤں گا - " ( بخارى : كتاب التفسير ؛ ٤٨٤٦ ) صلح حديبيه كے موقع پر جب عروه بن مسعود مكه والوں كى طرف سے سفير بن كر آنحضورا كى خدمت ِاقدس ميں حاضر هوا تها تو واپس جاكر اپنا چشم ديد واقعه بيان كيا جيسا كه صحيح بخارى شريف ميں هے - عروه اپنے ساتهيوں كى طرف لوٹ كر گيا اور كهنے لگا كه " بهائيو ! ميں تو بادشاهوں كے پاس بهى پهنچ چكا هوں - خدا كى قسم ! اس نے كسى بادشاه كو ايسا نهيں ديكها كه لوگ اس كى ايسى تعظيم كرتے هوں جيسے محمد كى تعظيم ان كے اصحاب كرتے هيں - خدا كى قسم ! اگر وه تهوكتے هيں توان كا تهوك كسى نه كسى صحابى كے هاته پرگرتا هے اور وه اپنے منه اور جسم پر تبركا ًاس كو مل ليتا هے - وه جب كوئى حكم ديتے هيں تو سب لپك كر ان كے حكم كو بجا لاتے هيں ، وضو كرتے هيں تو اس كا پانى ان كے لئے باعث بركت ٹههرتا هے اور اس كو لينے كے لئے چهينا جهپٹى كرتے هيں - وه بولتے هيں تو ان كے ساتهيوں كى آوازيں پست هوجاتى هيں - وه ان كى طرف گهور گهور كر ، آنكه بهر كر نهيں ديكهتے - " ( بخارى ؛ ٢٧٣١ ، ٢٧٣٢ ) دربارِ نبوت ميں حاضرى صحابه كرام كے لئے خاص تقريب كا موقع هوتا ، صاف ستهرے كپڑے زيب تن كرتے ، بغير طهارت كے آپ كى خدمت ميں حاضر هونا اور مصافحه كرنا گوارا نه هوتا ، راستے ميں كبهى ساته هوجاتا تو اپنى سوارى كو آنحضورا كى سوارى سے آگے نه بڑهنے ديتے - غايت ِادب كى بنا پر كسى بهى بات ميں مسابقت گوارا نه تهى - دستر خوان پر هوتے تو جب آپ كهانا شروع نه فرماتے كوئى كهانے ميں هاته نه ڈالتا - اگر آپ مكان كے نچلے حصے ميں قيام پذير هوتے تو يه خيال كه وه رسول اللها كے اوپر چل پهر رهے هيں ، انهيں ايك كونے ميں اپنے آپ كو قيد كرنے كے لئے كافى هوتا - يه تو تها آپ كى زندگى ميں صحابه كرام كا معمول مگر آپ كى وفات كے بعد هم لوگوں كے لئے آپ كى عزت و تكريم كا طريقه يه هے كه هم آپ سے صدقِ دل سے محبت كريں ، آپ كے فرمودات پر عمل كريں ، اپنى زندگى ميں آپ كو واقعى اپنے لئے اُسوهٴ حسنه سمجهيں - جب حديث پڑهى جارهى هو يا سننے كا موقع هو تو چلانا ، شور مچانا منع هے - حديث كى تعظيم رسول الله اكى تعظيم هے - حب ِ رسول كا حقيقى معيار اطاعت ِرسول حب ِرسول كا سب سے اهم تقاضا اطاعت ِرسول هے جيسا كه مندرجه ذيل روايات سے ثابت هوتا هے : j ايك صحابى خدمت ِاقدس ميں حاضر هوئے اور عرض كى : " يارسول الله ! ميں آپ كو اپنى جان و مال ، اهل و عيال سے زياده محبو ب ركهتا هوں ، جب ميں اپنے گهر ميں اپنے اهل وعيال كے ساته هوتا هوں اور شوقِ زيارت بے قرار كرتاهے تو دوڑا دوڑا آپ كے پاس آتا هوں ، آپ كا ديدار كركے سكون حاصل كرليتا هوں - ليكن جب ميں اپنى اور آپ كى موت كو ياد كرتا هوں تو سوچتا هوں كه آپ تو انبيا كے ساته اعلىٰ ترين درجات ميں هوں گے ، ميں جنت ميں گيا بهى تو آپ تك نه پهنچ سكوں گا اور آپ كے ديدار سے محروم رهوں گا - ( يه سوچ كر ) بے چين هوجاتا هوں اس پر الله تعالىٰ نے سورة النساء كى يه آيت نازل فرمائى : ﴿ وَمَنْ يُّطِعِ اللهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُؤلٰئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِيْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰئِكَ رَفِيْقًا ( سورة النساء : ٦٩ ) " اور جو لوگ الله اور رسول كى اطاعت كريں گے ، وه ان لوگوں كے ساته هوں گے جن پر الله تعالىٰ نے انعام فرمايا هے يعنى انبيا ، صديقين ، شهدا اور صالحين ، كيسے اچهے هيں يه رفيق جو كسى كو ميسر آئيں - " ( المصباح المنير فى تهذيب تفسير ابن كثير : ص٢٤٣ ) صحابى كے اظهارِ محبت كے جواب ميں الله نے يه آيت نازل كركے واضح فرما ديا كه اگر تم حب ِرسول ميں سچے هو اور آنحضور كى رفاقت حاصل كرنا چاهتے هو تو رسولِ اكرم ا كى اطاعت و فرمانبردارى اختيار كرو - حضرت ربيعه بن كعب اسلمى روايت كرتے هيں كه " ( ايك روز ) نبى عليه الصلوٰة والسلام نے مجهے مخاطب كركے فرمايا : مانگ لو ( جومانگنا چاهتے هو ) - ميں نے عرض كيا : " جنت ميں آپ كى رفاقت كا طلب گار هوں - " آپ نے فرمايا " كچه اس كے علاوه بهى ؟ " ميں نے عرض كيا " بس يهى مطلوب هے - " تو آپ نے فرمايا " تو پهر اپنے مطلب كے حصول كيلئے كثرتِ سجود سے ميرى مدد كرو - " ( يعنى ميرے دعا كرنے كے ساته تم نوافل كا بهى اهتمام كرو تو الله تعالىٰ ميرى دعا قبول فرمائے گا ) - ( صحيح ابوداود ؛ ١١٨٢ ) گويا آپ نے واضح فرما دياكه اگر ميرى محبت ميں ميرى رفاقت چاهتے هو تو عمل كرو - يهى حب ِرسول هے اور معيت ِرسول حاصل كرنے كاذريعه بهى - lحضرت عبدالله بن مغفل بيان كرتے هيں كه ايك شخص نے رسولِ اكرم كى خدمت ميں عرض كيا كه " يارسول الله ا ! مجهے آپ سے محبت هے - آپ نے فرمايا جو كچه كهه رهے هو ، سوچ سمجه كر كهو - تو اس نے تين دفعه كها ، خدا كى قسم مجهے آپ سے محبت هے - آپ نے فرمايا كه اگر مجهے محبوب ركهتے هو تو پهر فقروفاقه كے لئے تيار هوجاؤ ( كه ميرا طريق اميرى نهيں ، فقيرى هے ) كيونكه جو مجه سے محبت كرتاهے فقروفاقه اس كى طرف اس سے زياده تيزى سے آتا هے جيسى تيزى سے پانى بلندى سے نشيب كى طرف بهتا هے - " ( ترمذى ؛ ٢٣٥٠ ) گويا جس كے دل ميں حب ِرسول هے ، اسے چاهئے كه آنحضورا كى سنت كى پيروى ميں اپنے اندر سادگى ، صبروتحمل ، قناعت اور رضا بالقضا كى صفات پيدا كرنے كى سعى كرتا رهے - فرمانِ رسول الله عليه الصلوٰة والسلام هے : " من أحب سنتى فقد أحبنى ومن أحبنى كان معي فى الجنة " " جس نے ميرى سنت سے محبت كى ، اس نے مجه سے محبت كى اور جس نے مجه سے محبت كى ، وه جنت ميں ميرے ساته هوگا - " ( تاريخ ابن عساكر : ٣ / ١٤٥ ) فرمانِ رسول الله عليه والصلوٰة والسلام هے : " لا يوٴمن أحدكم حتى يكون هواه تبعا لما جئت به " " تم ميں سے كوئى شخص اس وقت تك موٴمن نهيں هوسكتا جب تك كه اپنى خواهشات كو ميرى لائى هوئى شريعت كے تابع نه كردے - " ( مشكوٰة للالبانى : ١٦٧ ) يعنى كافر اور موٴمن ميں تميز هى يهى هے كه جو الله كے رسول كى تابعدارى كرے گا وه موٴمن هوگا اور جو رسول اللها كى اطاعت نه كرے گا ، وه كافر هوگا جيساكه حضرت ابوهريره فرماتے هيں كه رسول الله ا نے فرمايا : كل أمتى يدخلون الجنة إلا من أبٰى قالوا يارسول الله ! ومن يأبى قال : من أطاعنى دخل الجنة ومن عصانى فقد أبٰى ( بخارى ؛ ٧٢٨٠ ) " ميرى اُمت كا هر شخص جنت ميں داخل هوگا ، سوائے اس كے جس نے انكار كيا - صحابه نے پوچها : اے الله كے رسول وه كون شخص هے جس نے ( جنت ميں جانے سے ) انكار كيا ؟ آپ نے فرمايا : جس نے ميرى اطاعت كى ، وه جنت ميں داخل هوگا اور جس نے ميرى نافرمانى كى ، اس نے انكار كيا - " قرآنِ مجيد ميں بهى الله تعالىٰ نے بار بار يه بات هميں سمجهائى هے - مثلاً سورة النساء ميں فرمايا : ﴿ وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ ( آيت نمبر ٦٤ ) " هم نے رسول بهيجے هى اس لئے هيں كه الله كے حكم سے ان كى اطاعت كى جائے - " سورة النساء ميں فرمايا : ﴿ وَمَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللهَ ( آيت نمبر ٨٠ ) " جس نے رسول كى اطاعت كى دراصل اس نے الله كى اطاعت كى - " سورة الاحزاب ميں فرمايا : ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوْ اللهَ وَالْيَومَ الاٰخِرَ ( آيت نمبر٢١ ) " تم ميں سے جو كوئى الله سے ملاقات اور آخرت كے دن پر ايمان ركهتا هے ، اس كے لئے رسول الله كى ذات والا صفات ميں اچها نمونه هے - " صحابه كرام رضى الله عنهم كى زندگيوں پر نظر ڈاليں تو آنكهيں كهل جاتى هيں كه كيسے انهوں نے حب ِرسول كا حق ادا كيا - آپ عليه الصلوٰة والسلام كى زندگى كا كوئى گوشه ايسا نه تها جسے انهوں نے غور سے نه ديكها هو اور پهر اپنے آپ كو اس كے مطابق ڈهال نه ليا هو - قاضى عياض اپنى كتاب ' الشفاء ' ميں فرماتے هيں : فقال سفيان المحبة اتباع رسول الله " سفيان ثورى ( تابعى ) نے فرمايا كه حب ِرسول كا مطلب درحقيقت اتباعِ رسول اللهﷺ هے - " بے شمار آياتِ قرآنى اور احاديث ِرسول كى روشنى ميں يه بات بالكل واضح هے كه حب رسول ا كا تقاضا يه هے كه زندگى كے تمام معاملات ميں قدم قدم پر آپ كى اطاعت كى جائے - وه محبت جو سنت رسول اللها پر عمل كرنا نه سكهائے محض دهوكه اور فريب هے - وه محبت جو رسول اكرم كى اطاعت و پيروى نه سكهائے محض لفاظى اور نفاق هے - وه محبت جو رسول الله ا كى غلامى كے عملى آداب نه سكهائے محض ريا اور دكهاوا هے - وه محبت جو سنت ِرسول كے علم كو سربلند نه كرے محض بولهبى هے - يه مصطفى برساں خويش را كه ديں همه اوست اگر به او نه رسيدى تمام بولهبى اوست قلبى محبت تكميل ايمان كے لئے رسول الله ا كى صرف ظاهرى اطاعت هى نهيں بلكه قلبى تسليم ورضا بهى ضرورى هے - فرمانِ بارى تعالىٰ هے : ﴿ فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُوْا فِىْ أنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ( النساء : ٦٥ ) " نهيں ، تمهارے ربّ كى قسم يه كبهى موٴمن نهيں هوسكتے جب تك اپنے باهمى اختلافات ميں آپ كو فيصله كرنے والا نه مان ليں - پهر جو كچه آپ فيصله كريں اس پر اپنے دلوں ميں كوئى تنگى بهى محسوس نه كريں بلكه دل و جان سے اسے تسليم كرليں - " حضرت حارث بن عبدالله بن اوس كهتے هيں كه " ميں عمر بن خطاب كے پاس حاضر هوا اور پوچها كه اگر قربانى كے دن طوافِ زيارت كرنے كے بعد عورت حائضه هوجائے تو كيا كرے ؟ حضرت عمر نے فرمايا : آخرى عمل بيت الله كا طواف هونا چاهئے - حارث نے كها : رسول اللها نے بهى مجهے يهى فتوىٰ ديا تها - اس پر حضرت عمر نے فرمايا : تيرے هاته ٹوٹ جائيں تو نے مجه سے ايسى بات پوچهى جو رسول اللها سے پوچه چكا تها ، تاكه ميں رسول اللها كے خلاف فيصله كروں - " ( صحيح ابوداود ؛ ١٧٦٠ ) سنت كا علم هونے كے باوجود مسئله دريافت كرنے پر حضرت عمر كى ناراضگى اس بنا پر تهى كه رسول اللها كے فيصلے كو دلى رضا مندى كے ساته كيوں نهيں تسليم كيا - ايك اور حديث ملاحظه كريں - حضرت عروه بن زبير روايت كرتے هيں كه " ميرے باپ زبير اور ايك انصارى ميں فره كے مقام پر پانى پر جهگڑا هوا - آپ نے زبير كو كها كه تم اپنے درختوں كو پانى لگا لو - پهر اسے همسائے كے باغ ميں جانے دو - يه سن كر انصارى كهنے لگا : كيوں نهيں ، آخر زبير آپ كے پهوپهى زاد جو هوئے ( اس لئے آپ نے ان كے حق ميں فيصله كيا هے ) يه سن كر آپ كا رنگ متغير هوگيا اور آپ نے زبير كو كها : زبير ! اپنے كهيت كو پانى پلاؤ جب تك پانى منڈيروں پرنه پهنچ جائے ، اس كے لئے پانى نه چهوڑو - " ( بخارى ؛ ٤٥٨٥ ) يعنى جب انصارى نے آپ كے فيصلے كو تسليم نه كيا تو آپ كو غصه آگيا تو آپ نے انصاف والا حكم جارى فرمايا - جب كه آپ كے پهلے حكم ميں دونوں كى رعايت ملحوظ تهى - رسول الله ﷺكے حكم كى موجودگى ميں اپنى مرضى يا كسى دوسرے كے حكم پر عمل كرنے كى دين اسلام ميں كوئى گنجائش نهيں - سورة الاحزاب ميں فرمانِ خداوندى هے : ﴿ وَمَا كَانَ لِمُوٴْمِنٍ وَّلاَ مُوْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللهُ وَرَسُوْلُه أمْرًا أنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَه فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُّبِيْنًا " كسى موٴمن مرد اور عورت كو يه حق نهيں كه جب الله اور اس كے رسول ا كسى معاملے كا فيصله كرديں تو ان كے اپنے معاملے ميں اختيار باقى ره جائے اور جو كوئى الله ورسول كى نافرمانى كرے ، وه صريح گمراهى ميں پڑ گيا - " ( آيت نمبر ٣٦ ) سورة الحشر ، آيت نمبر ٧ ميں ارشادِ الٰهى هے : ﴿ وَمَا اٰتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْه وَمَا نَهٰكُمْ عَنْه فَانْتَهُوْا وَاتَّقُوْا الله اِنَّ الله شَدِيْدُ الْعِقَابِ " جو كچه رسول تمهيں ديں ، وه لے لو اور جس چيز سے تمهيں روك ديں ، اس سے رك جاؤ اور الله سے ڈر جاؤ ، وه شديد عذاب دينے والا هے - " گويا آپ كا حكم اور عمل هى فيصله كن سند قرار پائے اور اس حكم كو ماننے يا نه ماننے اور اس پر ناگوارى كے احساس يا عدمِ احساس پر هى آدمى كے موٴمن هونے يا نه هونے كا انحصار ٹههرا هے - يه ممكن هى نهيں كه موٴمن الله اور اس كے رسول كے كئے گئے فيصله كے متعلق عدم اطمينان كا شائبه تك دل ميں لائے - آج كے مسلمانوں كواپنا جائزه لينا چاهئے كه وه حب ِرسول كے اس تقاضے كو كس حد تك نباهتے هيں ؟ و در تـفـسـيـر قـمـى در ذيـل آيـه ( و انـه هـو رب الشـعـرى ) از امـام نـقـل كـرده فـرمـوده : مـنـظـور از شعرى ستاره اى است كه قريش و قومى از عرب آن را مى پرستيدند ، ستاره اى است كه در آخر شب طلوع مى كند . « در جنگ انگليس و عثمانى ، قوى ترين دولت روى زمين يعنى دولت عثمانى مغلوب ضعيف ترين دولت ها يعنى انگليس شد . . . » ( 199 / 2 ) . من خيلي آدم ان و مزخرفيم به هيچ كسم سر نمي زنم اصلا به نظرم همه وبلاگ هاي ديگه به جز خودم تخمين اصلا حال مي كنم كسي نمياد اينجارو بخونه و منم همينطور هي واسه خودم شر و ور مي نويسم در محضر اهل ذکر : امام على عليه السلام : هر بيمارى اى از پُرخورى است ، مگر تب ، كه ناگاه به بدن درمى آيد . الكافي ، جلد 6 ، صفحه 269 ، حديث 8 . . . . دارم اندازه قلبت با اشکام عشق مي بافم [ ۳ ] - بحارالأنوار : ح ۲ ، ص ۹۰ ، ح ۱۳ ، و۵۳ ، ص ۱۸۱ ، س ۳ ، وج ۷۵ ، ص ۳۸۰ ، ح ۱ . فرمود : براى هیچکس جائز نیست که در اموال و چیزهاى دیگران تصرّف نماید مگر با اذن و اجازه صاحب و مالک آن . نمايشگاهش خيلي قشنگ بود ولي حيف كه ديشب شب آخرش بود پايدىلىق تەدبىر دەڭسەپ كۆرۈلگەندىن كېيىن ئۇ قۇبۇل قىلنسا ، تاشقى ياردەمچى شەرت قىلىشقا بولىدىغان پايدىلىق ۋەزىيەتنى ھاسىل قىلشقا بولىدۇ . ۋەزىيەت دېگىنىمىز ئۆزىمىزگە پايدىلىق شارائىتقا ئاساسلىنىپ جانلىق ھەركەت قىلىش ، ئۇرۇشتا تەشەببۇسكارلىقنى ئىگىلەش دېمەكتۇر . وانا فسنه اولى جامعه اتعرفت على واحد وبسرعه اعجب بيا وبعدين قالى انه بيحبنى وانه اول ميخلص دراسه هيجى يتقدم ليا وحبينا بعض وارتبطنا عاطفيآ ولكنه اشترط عليا انى مفكرش فالشغل بعد كده وانا وافقت ولكنى مع مرور الوقت قضيت معاه اوقات كتير صعبه كنت بتحمل منه معامله سيئه وتحكم فيا حتى انه مكنش بيرضى يخلينى اروح الدروس بحجة ان فيها شباب وهو بيغير عليا وفين وفين لو رضى يخلينى اروح بس مراجعة ليلة الأمتحان وكنت لو نازله وخارجه فاى حته لازم اكلمه واستاذنه وايضآ تركته كذا مره بسبب انه كان يسىء معاملتى ولكنه بعد ذلك كان يعتذر لى كثيرآ ويطلب ان اسامحه واحنا دلوقتى بقالنا حوالى 5 سنين مرتبطين ولكن المشكله دلوقت انى اتغيرت مع الوقت ولكن مش من ناحيته . اتغيرت فانى نفسى اشتغل واحقق نفسى لأنى حاسه انى عمرى معملت اى حاجه انا بحبها نفسى اخد كورسات انجليزى وكمبيوتر واشتغل وابقا حاجه كبيره زهقت من قاعدة البيت دانا كل اللى يشوفنى يحس انى عندى 60 سنه ولكن للاسف هو رافض انى اشتغل لأنه شايف ان البنت المفروض يبقا كل طموحتها انها تتجوز وتقعد فالبيت وقالى احنا متفقين على كده من الأول وانى لو اشتغلت يبقا انا كده ببيعه وبفضل الشغل عليه . انا بحبه ونفسى يكون هو شريك حياتى وطبعآ نفسى فالبيت والاطفال زى اى واحده فالدنيا ولكنى انا بسالكوا هل لأنى بنت فمش من حقى انى افكر فاى حاجه غير الجواز ومش من حقى ان يكون ليا طموح ومستقبل انا اللى اختاره مش حد تانى وهل لوانا صممت على الشغل يبقا انا كده ببيعه ومش المفروض اللى بيحب انسان يقف جنبه ويشجعه ويشاركه فتحقيق احلامه والا المفروض ان الست هى بس اللى تقف جنب الراجل وتشجعه على تحقيق طموحاته واحلامه وهى ميكونش ليها اى احلام والا اى حاجه لمجرد انها ست . مش هقول انى كل ايامى معاه كانت وحشه لا فى ايام كتير كانت حلوه بس للاسف هو مش قادر يقتنع انى انسانه وليا طموحى والمفروض انى اتنازل عن اى حاجه لكن هو ميتنازلش فالموضوع ده اه انا وافقت قبل كده زمان لكن انا كنت صغيره ماليش اى احلام والا اى حاجه لكنى كبرت واتخرجت وجوايا حاجات كتير اوى نفسى اعملها وكمان كان هو سبب من الاسباب اللى خلتنى اتغير وخلتنى افكر بانى لازم يكون ليا شخصيتى وانى اهتم بمستقبلى وده من معاملته ليا طول السنين اللى فاتت ولما شوفته هو قدايه مهتم بمستقبله . انا عارفه انى طولت عليكم بس انا بجد محتاجه اراكم ياريت تقولولى اتصرف ازاى واعمل ايه : MsgPlus_Img0599 : ماه رمضان ماه استغفار ، ماه روزه وماه دعا است . پيامبر اکرم ( ص ) در مرحله ى يك هشتم ليگ قهرمانان اروپا رئال مقابل مهلا حبيبى . . . هيا انتظر . . . شوقا تدفئه أحضانى . . ألأنك قدرى عشقت الحياه ؟ ؟ ؟ أم أن عشقك هو أحيانى ؟ ؟ ؟ عنك كتبت أقاصيص الهوى . . عنك كتبت أحلى المعانى . . قلم . . وقطرات حبر . . فى صفحة . . نطق الفؤاد بها ألحانى . رائع احساسك ياروو ربنا يسعدك ف حياتك وارجو من الله ان تعيشى اجمل حب ان شاء الله تحياتى لكى ولكلماتك المعبره زینب ( سلام الله علیها ) که بزرگترین دختر فاطمه ( علیها السلام ) به شمار می‌آید ، بانویی عابد و پاکدامن و عالم بود . او پس از واقعه عاشورا ، و در امتداد حرکت امام حسین ( علیه السلام ) ، آن چنان قیام حسینی را نیکو تبیین نمود ، که پایه‌های حکومت فاسق اموی به لرزه افتاد و صدای اعتراض مردم نسبت به ظلم و جور یزید بارها و بارها بلند شد . یہاں آکر اپنا تعارف کروائیں : ( جولائی + اگست - 2009ء ) از جمله عمده ترين اين هزينه ها ميتوان از موارد ذيل نام برد : 6_رسول خد ا ( ص ) كى دانشمندانہ قيادت ، ميدان كارزار ميں مسلسل موجودگى ، عين وقت پر صحيح تدبير ' سياسى اور جنگى چالوں كے باعث بيرونى اوراندرونى دشمن كے دلوں پر مايوسى كا چھاجانا_ هام : - لايمكنكم مشاهدة المواضيع الا بعد الإشتراك بالمنتدي / للإشتراك اضغط هنا / من فقد عضويتة جابر مى گوید : در محضر امام باقر علیه السلام بودم که لحظه اى دلم گرفت . عرض کردم : فدایت شوم گاهى بدون اینکه مصیبتى به من برسد یا دچار مشکلى شوم ، اندوهگین مى شوم تا آنجا که خانواده و دوستانم ، اثرش را در رخسارم مشاهده مى کنند . فرمود : « یا جابِرُ اِنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ طِینَةِ الْجَنانِ وَاَجْرَى فِیهِمْ مِنْ رِیحِ رُوحِهِ فَلِذلِکَ الْمُؤْمِنُ اَخُو الْمُؤْمِنِ لاَِبِیهِ وَاُمِّهِ فَاِذا اَصابَ رُوحا مِنْ تِلْکَ الاَْرْواحِ فِى بَلَدٍ مِنَ الْبُلْدانِ حُزْنٌ حَزِنَتْ هذِهِ لاَِنَّها مِنْها ؛ آرى اى جابر ! خداى عزوجل ، مؤمنان را از طینت بهشتى آفرید و از نسیم روح خویش در آنها جارى ساخت ؛ از اینرو است که مؤمن برادر پدر و مادرى مؤمن است ؛ ( زیرا طینت به منزله پدر و نسیم به جاى مادر است و در حقیقت از این والدین ، زاده شده اند . ) پس هر گاه به یکى از آن ارواح ، در نقطه اى ، اندوهى رسد ، آن روح دیگر اندوهگین شود ؛ زیرا از جنس اوست . » دوستان ! اگر اين چند روز من دير به دير اينجا را آپ - ديت ميكنم ، دليلش اينست كه كلاً چند روز گذشته خيلي حوصله ندارم . دارم به ديپرشن ماژور دچار ميشم فكر كنم . از اين افسردگيهاي دوره اي كه فكر كنم سراغ همه مياد . به گمانم حسابي خودم را لوس كردم . فعلاً كوه هنوز هم باحاله . هنوز هر 28 - 29 روز يكبار ، ماه داره . اون هم يك ماه گنده . وقتي اون رو بالا سرم ، مي‌بينم كيف مي‌كنم . گر چه بماند كه امشب هوا غبارآلود بود ، و يك ذره ماه رو تار مي‌ديدم . و تازه يك گوشه‌اش هم پريده بود . ولي خب همينجورش هم باحال بود . : ) هوا دلپذير بود . حيف كه كفشم رو برنداشته بودم . اگر نه تا اون بالاي بالا مي‌رفتم و برمي‌گشتم . خيلي وقته كه بالا نمي‌رم . از وقتي كه زانوهام درد گرفت ، يكم بيشتر مراقبت مي‌كنم . امشب به اين نتيجه رسيدم كه بازم مي‌تونم اون بالا برم . ولي چه فايده كه كفشم خوب نبود . : ) وقتي مي‌رم كوه ياد خيلي چيزها مي‌افتم . لحظات خوب ، لحظات بد . هر دفعه يك دور مرور مي‌كنم . فهميدم كه هيچ چيز ابدي نيست . و همه چيز تغيير مي‌كنه . امشب از بالا به شهر نگاه مي‌كنم . مي‌گم : به نظر چند تا آدم گشنه توي اين شهر ، دنبال يك لقمه نون هستند . چقدر آدمهايي زندگي مي‌كنند ، كه از فرط سيري دارند مي‌ميرند . چند نفر آدم هستند كه در همين لحظه ، كشته شدند يا به مرگ طبيعي مردند . در مقابل چند نفر آدم پا به اين شهر گذاشتند . چند نفر هستند كه الان ، دلشون شكسته . در مقابل چند نفر هستند كه شادند . در اين لحظه چند تا دزدي داره انجام مي‌شه . چند تا دزد گير افتادند . در اين لحظه چند نفر همدگر رو بغل كردند ، چند نفر با هم قهر مي‌كنند . . . . به سالي كه داره تمام مي‌شه فكر مي‌كنم . به اينكه با همه سختي‌هاش ، چه تجربيات جديدي رو گذروندم . به اينكه سخت بوده ولي خوب بوده . به اينكه نظرم نسبت به خيلي چيزها عوض شده . به اينكه . . . عذاب‌هاي آسماني نتيجه ناسپاسي و بي‌حرمتي به حقايق دين است . ايه تهدية النفوس دي مع انه لسه ماجوبش مرتبط با : نمونه سوالات امتحانی سوم دبیرستان نمونه سوالات زبان فارسی ويب پر ايک قرآن کريم کا لنک « لا ميرسى على واجب يا قمر انا قلت اخدم بس این کیک حاصل سوتفاهم آقای شیرینی پز عزیز داستان ما بوده است . ماجرا از این قرار است که ایشان ایمیلی را دریافت می کند ، که در آن از وی خواسته شده مورد فرستاده شده را روی کیک چاپ کند . اما مورد فرستاده شد در ایمیل این بود : جز از تو كه يكتايى و شريكى ندارى خدايا من به خوبى مىيابم كه راه‌هاى جستجو به سوى تو نظر إبن تيميه نسبت به ولادت حضرت مهدي ( عجل الله تعالي فرجه الشريف ) چيست ؟ وظيفة - عمل : & الدعوة إلى الله & 28 تراثنا , ش 21العدد الخاصّ بالغدير ) ( عربى , چاپى ) جمعى از محققين . مؤسسهء آل البيت ( ع ) لاحياء التراث , قم سال 1410ق . وزيرى , 454ص . اين كتاب شمارهء بيست و يكم از مجلهء علمى و فصلى < تراثنا > است كه مطابق شماره چهارم از سال پنجم آن است , و مخصوص غدير سال 1410قمرى در خارج از وقت صدور مجله تدوين و به چاپ رسيده است . اين شماره شامل ده مقاله و كتاب است كه شرح موضوعات آنها به اين مضمون است : 1 الغدير عبرالتاريخ و التراث , كلام هيئت تحريريه . 2 الغدير فى حديث العترة الطاهرة , سيد محمد جواد شبيرى : ] ; ك ك فصل اول : واقعه غدير . فصل دوم : معرفى مواضع نزول آيه هاى اكمال و تبليغ . فصل سوم : حد گذارى روز غدير . فصل چهارم : غدير در بحار معصومين ( ع ) . فصل پنجم : روز غدير بزرگترين عيد در اسلام . 3 حديث الغدير التبليغ الاخير لامامة الامير , سيد على ميلانى . امر امامت با خداست , بين حديث نور و حديث دار , بين حديث دار و حديث غدير , حديث غدير , خصايص غدير و اهميت آن , عنايت به حديث غدير , شواهد حديث غدير , موقفهاى متضاد , علما در غدير , مفاد حديث غدير , تشكيك در دلالت , بين غدير و حوض . 4 الغدير فى ظل التهديدات الالهية للمعارضة , سيد جعفر مرتضى عاملى : به كتاب < الغدير و المعارضون > در همين كتابنامه مراجعه شود . 5 الغدير فى التراث الاسلامى , سيد عبدالعزيز طباطبائى : به همين نام در اين كتابنامه مراجعه شود . 6 تعريف بمصادر الامامة فى التراث الشيعى , عبدالجبار رفاعى : معرفى آنچه در امامت نگاشته شده , كه در چند شمارهء تراثنا چاپ مى شود . 7 تحقيق حول كتاب حديث الشورى , أحد مصادر الغدير , سيد محمد جواد شبيرى : مبحث اول : نسبت كتاب به عمر و بن ثابت , مبحث دوم : وجود مردى به اسم عمر و بن ميمون و بن ابى المقدام , مبحث سوم : اعتقاد شيخ در يكى بودن عمرو بن ميمون با عمرو بن ابى المقدام ثابت , مبحث چهارم : نسبت كتاب حديث شورى به عمر و بن ميمون اودى , مبحث پنجم : بيان مختار در مسئله . 8 غديريّة للحرالعاملى , تحقيق اسد مولوى : غديريه اى از ديوان شيخ حر عاملى كه پس از انتخاب و تحقيق در اين مجله چاپ شده است . 9 الاعلام بحقيقة اسلام اميرالمؤمنين ( ع ) , محمد بن على كراجكى , تحقيق : على موسى كعبى . تمام مطالب زير به عنوان فصل آمده است : اسلام اميرالمؤمنين ( ع ) , اميرالمؤمنين ( ع ) اولين كسى بود كه بعد ازحضرت خديجه ايمان آورده , اسلام اميرالمؤمنين از روى بصيرت و استدلال بود . مسئلهء بلوغ . 10 دليل النص بخبر الغدير على امامة أميرالمؤمنين ( ع ) , محمد بن على كراجكى , تحقيق : اسامه آل جعفر : به همين نام در اين كتابنامه مراجعه شود . نكته قابل توجه : در < الغدير فى التراث الاسلامى > ص 219ش 142از اين كتاب با نام < العدد الخاص بالغدير من مجلة تراثنا > ياد ] ; ّّنموده است . 29 ترجمهء چهل حديث از جلد دهم كتاب الغدير ( فارسى , چاپى ) سيد حسن موسوى ( اصفهانى ) . تهران , سال 1977م . چاپ سوم : ناشر : مؤلف , تهران , سال 1413ق , 1371ش . جيبى , 39ق . كتاب ترجمهء چهل حديث از جلد دهم كتاب < الغدير > علامهء امينى به فارسى است . رجمهء خطبهء غدير خم = خطبهء غدير خم ( فارسى , چاپى ) 30 ترجمهء خطبهء غديريّه ( فارسى , خطى ) محمود بن محمد تقى كلباسى , م 1365ق . ماشين نويسى , سال 1360ق . فهرست نسخه هاى خطى كتابخانهء جامع گوهر شاد ج 555ش 452 اين كتاب ترجمهء خطبهء مفصل و طولانى غدير است كه با اشراف حجةالاسلام حسن على مرواريد در سال 1360مرى انجام شده و مقدارى از اواخر ترجمه از ايشان است . در آخر كتاب مخمسى فارسى از صامت اميرالمؤمنين ( ع ) آورده شده است . 31 ترجمهء الغدير ( اردو , خطى ) عبدالحسين بن احمد امينى ( تبريزى , نجفى ) م 1390 . مترجم : مصطفى جوهر هندى ( بيهارى ) . اين كتاب ترجمهء جلد اول كتاب < الغدير فى الكتاب و السنة و الادب > علامهء امينى به زبان اردو است . نكتهء قابل توجه : ] ; ّّ اين كتاب قبل از اينكه به چاپ برسد در چاپخانه از بين رفته است . . . ! ! 32 ترجمة الغدير ( اردو , چاپى ) عبدالحسين ابن احمد امينى ( تبريزى , نجفى ) م 1390ق . مترجم : سيد على اختر هندى ( گوپال پورى ) . چاپ : بمبئى ( هند ) . اين كتاب ترجمهء جلد اول كتاب < الغدير > علامهء امينى به اردو است . 33 ترجمهء الغدير , 22ج ( فارسى , چاپى ) عبدالحسين بن احمد امينى ( تبريزى , نجفى ) م 1390ق . از آنجا كه ترجمهء < الغدير > توسط چند نفر انجام شده اند نام مترجم و مشخصات چاپى و كتابشناسى هر جلد راجداگانه مى آوريم . ابتدا كتابشناسى كل كتاب بيان مى شود . اين كتاب ترجمهء تمام جلدهاى يازده گانهء < الغدير فى الكتاب و السنة و الادب > علامهء امينى به فارسى است كه توسط مترجمان متعددى در بيست و دو جلد انجام گرفته و از نظر تنظيم جلدها با < الغدير > متفاوت و گاهى جلدى ازترجمه تا اواسط جلدى از الغدير رسيده و جلد بعدى از آنجا به بعد است . 1 مترجم : سيد محمد تقى واحدى . تصحيح و مقابله : سيد هادى سينا . چاپ اول : جامعهء تبليغات اسلامى , سال 1381ق , 1340ش . چاپ دوم : كتابخانهء بزرگ اسلامى , انتشارات غدير , تهران . چاپ چهارم : كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1365ش . چاپ پنجم : همان ناشر , سال 1369ش . وزيرى : 174 + 244ص . اين جلد شامل مقدمه اى مفصل در صد و هفتاد و چهار صفحه است . در اين مقدمه ابتدا مطالبى دربارهء ولايت ] ; ّّاميرالمؤمنين ( ع ) آمده سپس نامه هاى تفريظ از سلاطين و علما بر الغدير ترجمه شده و اشعارى از شعراى عرب وفارسى در مدح الغدير ذكر گشته , و نهايتاً اقداماتى كه به عنوان تشكيل مكتبهاى الغدير براى تدريس آن در ايران وخارج از ايران انجام شده ذكر شده است . براى آنك يك دور كامل مندرجات الغدير براى خواننده روشن باشد فهرستى از تصحيح : محمد باقر بهبودى . سپس به كتبى كه دربارهء حديث غدير تأليف شده اشاره نموده و بعد از آن مطالبى در شرح حال علامه امينى آورده شده است . بعد از آن اهميت و خصوصيات كتاب الغدير مطرح شده در خاتمه ترجمهء الغدير توضيح داده شده ومتذكر شده كه < جامعهء تعليمات اسلامى > به اين مهم اقدام نموده است و ذيل آنرا آقاى واحدى به تاريخ ماه صفر سال 1381قمرى امضا كرده است . پس از پايان مقدمه ترجمهء جلد اول الغدير آغاز شده و تا پايان اين جلد راويان حديث غدير از علما 360نفر ذكرشده است . 2 : مترجم : سيد محمد تقى واحدى . تحصيح و مقابله : سيد هادى سينا . كتابخانهء بزرگ اسلامى , انتشارات الغدير , تهران . وزيرى , 408ص . چاپ پنجم : كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1369ش . اين جلد از اول مناشده و احتجاج با حديث غدير آغاز شده و سپس بحث غدير در قرآن و عيد غدير در اسلام وسخنى چند پيرامون حديث غدير آورده شده است . بعد از آن دربارهء مفاد حديث غدير مطالبى آمده و تا بحث انتقاد ازابن كثير , جلد دوم پايان يافته است . 3 مترجم : سيد محمد تقى واحدى . تصحيح : محمد باقر بهبودى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , انتشارات غدير , تهران . وزيرى : 328ص . ] ; ّّ چاپ دوم : سال 1362ش . در اين جلد بخش شعراى غدير آغاز مى شود و از شعراى قرن اول تا محمد حميرى ذكر مى شود . 4 : مترجم : على شيخ الاسلامى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران . وزيرى , 304ص . چاپ : سوم : سال 1362ش . اين جلد از شعراى قرن دوم آغاز مى شود و به شعراى قرن سوم مى رسد و تا دعبل در اين جلد ذكر شده است . 5 : مترجم : جمال موسوى . تصحيح : محمد باقر بهبودى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , انتشارات غدير , تهران . چاپ دوم : سال 1362ق . وزيرى : 364ص . اين جلد بقيهء شعراى قرن سوم را از ابواسماعيل علوى آغاز كرده و تا پايان شعراى اين قرن آورده , و سپس قسمتى از شعراى قرن چهارم را ذكر كرده است . در اين جلد مباحث بسيارى دربارهء منكرين فضايل اهل بيت ( ع ) و نمونه هايى از موارد انكارشان ذكر شده است . و تا انكار حديث ولايت و پاسخ آن مطلب پيش رفته است . 6 : مترجمه : جمال موسوى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران سال 1353ش . وزيرى , 222ص . چاپ دوم : سال 1362ش . چاپ سوم : بنياد بعثت , تهران , سال 1370ش . وزيرى , 322ص . ] ; ّّ چاپ ششم : كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1369 . وزيرى , 363ص . در اين جلد ابتدا مقدمه اى در نقش الغدير در شناخت منابع اصيل فكر اسلامى آمده و سپس بقيهء شعراى قرن چهارم از بحث انتقادى دربارهء كتاب < البداية و النهاية > آغاز شده و تا ابو فراس حمدانى ذكر شده است . 7 : مترجم : محمد باقر بهبودى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1354ش . 1976م . چاپ دوم : سال 1362ش . چاپ سوم : بنياد بعثت , سال 1370ش . وزيرى , 352ص . اين جلد بقيهء شعراى قرن چهارم از كشاجم شروع شده و پس از پايان شعراى قرن چهارم , قرن پنجم را ذكر كرده و تاشريف رضى در اين جلد ذكر شده است . 8 : مترجم : محمد باقر بهبودى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1356ش . 1988م . چاپ دوم : سال 1363ش . چاپ سوم : بنياد بعثت , سال 1370ش . وزيرى , 288ص . اين جلد بقيهء شعراى قرن پنجم از ابو محمد صورى شروع شده , و پس از اتمام قرن پنجم شعراى قرن ششم تاعمارهء يمنى ذكر شده است . 9 : مترجم : زين العابدين قربانى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , انتشارات غدير , تهران , سا ل 1353ش . وزيرى : 346ص . ] ; ّّ چاپ سوم : كتابخانهء بزرگ اسلامى , سال 1360ش . چاپ چهارم : بنياد بعثت , سال 1370ش . وزيرى , 346ص . اين جلد بقيهء شعراى قرن ششم از سيد محمد اقساسى شروع شده و قسمت اعظم آن دربارهء علم غيبت ائمه ( ع ) وزيارت قبور است . 10 : مترجم : زين العادبدين قربانى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1354ش . چاپ سوم : همان ناشر , سال 1363ش . چاپ چهارم : بنياد بعثت , سال 1370ش . وزيرى , 360ص . اين جلد در معرفى جاعلين احاديث و بحث دربارهء جعل و تحريف است . در اواخر اين جلد شعراى قرن هفتم آغازمى شود و تا بهاءالدين اربلى پايان مى يابد . 11 : مترجم : محمد شريف رازى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , بنياد بعثت , تهران , چاپ اول , سال 1403ق , 1361ش . وزيرى : 404ص . در اين جلد ابتدا چند تفريظ ترجمه شده و سپس شعراى غدير در قرن هشتم ذكر شده است . در اين جلد عجايب بى پايه از نمونه هاى اظهار علم عمر بيان شده است . 12 مترجم : محمد شريف رازى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , بنياد بعثت , تهران , سال 1403ق , 1361 . وزيرى , 410ص . اين جلد كه ترجمهء بخش دوم از جلد ششم متن عربى است از بحث متعه آغاز شده و سپس قسمت < نوادر الاثر فى ] ; ّّ علم عمر > كه بيش از صد نمونه از جهل عمر به مسائل دينى است آمده , و سپس تا ذكر قصايد علاءالدين حلى در اين جلد آمده است . 13 : مترجم : اكبر ثبوت . چاپ سوم : سال 1363ش . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1356 . وزيرى , 362ص . اين جلد بقيهء شعراى غدير در قرن نهم آغاز شده تا بحث دربارهء خالدبن وليد خاتمه يافته . و در پايان هفده صفحه دربارهء كتاب الغدير و اهميت آن سخن گفته است . 14 : مترجم : اكبر ثبوت . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1356 . چاپ سوم : سال 1363ش . چاپ چهارم : بنياد بعثت , تهران , سال 1369ش . وزيرى , 392ص . در اين جلد ابتدا مقدعه اى با عنوان < آنچه هنگام خواندن الغدير بايد به ياد داشت آمده و سپس مباحث مربوط به ابوبكر مطرح شده و اواخر اين جلد دربارهء ايمان حضرت ابوطالب ( ع ) است . > 15 : مترجم : اكبر ثبوت . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1356 . چاپ سوم : سال 1361ش . چاپ چهارم : بنياد بعثت , تهران , سال 1370ش . وزيرى , 376ص . اين جلد پس از ادامهء بحث درباره فضايل حضرت ابوطالب ( ع ) به فضايل ساختگى درباره ابوبكر و عمر و عثمان و ] ; ّّنيز بدعتهاى آنان پرداخته است . 16 : مترجم : اكبر ثبوت . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1357 . چاپ سوم : سال 1363ش . وزيرى : 261ص . چاپ چهارم : بنياد بعثت , تهران , سال 1370ش . وزيرى , 284ص . اين جلد ادامهء بدعتهاى عثمان است , و در خاتمه چند تقريظ دربارهء كتاب الغدير به فارسى ترجمه شده است . 17 : مترجم : جلال الدين فارسى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , دارالكتب الاسلامية , تهران , سال 1354 . وزيرى : 343ص . چاپ سوم : سال 1363ش . چاپ چهارم : بنياد بعثت , تهران , سال 1370ش . در آغاز اين جلد پس از آوردن چند تقريظ , بقيهء بدعتهاى عثمان را آورده است . 18 : مترجم : جلال الدين فارسى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , داراكتب الاسلامية , تهران , سال 1354 . چاپ چهارم : بنياد بعثت , تهران , سال 1370ش . وزيرى : 327ص . در اين جلد ابتدا دربارهء عثمان سخن به ميان آمده و سپس فضايل جعلى او مطرح شده و در خاتمه فضايل جعلى ابوبكر و عمر نيز مورد بحث قرار گرفته است . 19 : ] ; ّّ مترجم : جلال الدين فارسى . كتابخانهء بزرگ اسلامى , تهران , سال 1356 . چاپ سوم : سال 1363ش . چاپ چهارم : بنياد بعثت , تهران , سال 1370ش . وزيرى , 312ص . در آغاز اين جلد چند تفريظ ترجمه شده , و سپس ادامه بحث جلد قبلى دربارهء فضايل جعلى ابوبكر و عمر وعثمان مطرح شده است . در اين زمينه بحث دربارهء فضيلت سازى براى معاويه مطرح شده , و سپس دوران زندگى سياهش تبيين گرديده است . 20 : مترجم : جلال الدين فارسى . چاپ سوم : كتابخانهء بزرگ اسلامى , بنياد بعثت , تهران , سال 1363ش . وزيرى , 280ص . اين جلد دربارهء بدعتهاى و جنايات معاويه است و در خاتمه فضايل جعلى او مورد بحث قرار گرفته است . 21 : مترجم : جليل تجليل . چاپ اول : كتابخانهء بزرگ اسلامى , بنياد بعثت تهران , سال 1365 . چاپ سوم : بنياد بعثت , تهران , سال 1373ش . وزيرى , 320ص . اين جلد ادامه فضايل ساختگى معاويه است , و در نيمهء دوم اين جلد به فضايل ساختگى دربارهء افراد ديگرى كه جعالين ساخته اند صحبت شده است . 22 : مترجم : جليل تجليل . كتابخانهء بزرگ اسلامى , بنياد بعثت تهران , چاپ اول , سال 1365 . وزيرى , 352ص . ] ; ّّ اين جلد دنبالهء شاعران قرن نهم است كه از ضياءالدين هادى آغاز مى شود , سپس شاعران قرن دهم , يازدهم ودوازدهم ذكر شده و با ذكر سيد بدر الدين از شعراى قرن دوازدهم پايان يافته است , كه منطبق بر پايان جلد يازدهم الغدير است , و با اين جلد ترجمه نيز پايان مى يابد . نكات قابل توجه : 1 در كتاب < سيرى در الغدير > از فرزند مؤلف دانشمند مرحوم محمد امينى ص 157 دو صفحه دربارهء اين كتاب ( ترجمهء الغدير ) صحبت نموده , كه مراجعهء به آن لازم است ! 2 چنانچه ملاحظه شد , اين كتاب در طى چند سال و به طور غير منظم توسط افراد مختلف ترجمه و چاپ شده است . 3 براى ترجمه هاى ديگر < الغدير > به فارسى و اردو , به خود كتاب < الغدير > مراجعه شود . 4 جلد اول اين كتاب ( ترجمهء الغدير ) در چاپ اول با نام < عناية الامير فى ترجمة الغدير > چاپ شده ولى اين نام درچاپهاى ديگر و نيز هيچ چاپى از جلدهاى ديگر نيامده است . 5 در تراثنا شماره 28 ( عبدالجبار رفاعى ) ص 148ش 1802 و نيز معجم ماكتب عن الرسول و اهل البيت ( ع ) ج 190ش 15160 جلد هشتم را از ترجمهء < فرهاد جلالى > دانسته است ! در حاليكه در چاپى آن نام < محمد باقربهبودى > آمده است . 6 براى توضيح بيشتر كتابشناسى به كتاب < الغدير > مراجعه شود . 34 ترجمهء الغدير ( ناتمام ) ( فارسى , خطى ) عبدالحسين بن احمد امينى ( تبريزى , نجفى ) م 1390ق . مترجم : محمد امينى , رضا امينى , احمد امينى ( فرزندان مؤلف ) . اين كتاب ترجمهء كتاب < الغدير فى الكتاب و السنة و الادب > علامهء امينى است كه توسط فرزندان مؤلف تا جلدسوم ترجمه شده و در راه تكميل است . رجمة كتاب الغدير , ( موسوى ) = الغدير , ( اردو , چاپى ) رجمهء ( منظوم ) خطبهء غدير خم ( جبروتى ) = خطبهء غدير خم ( فارسى , چاپى ) ] ; ّّ35 تصحيح أسانيد الغدير , ج 1 ( ناتمام ) ( عربى , خطى ) حسين بن عبدالله معتوقى ( قطيفى , كويتى ) . كتاب در اسانيد غدير است كه در آن حودد ششصد سند تا بيش از صدو بيست صحابى براى حديث و واقعهء غديرجمع آورى شده است . در اين كتاب بر حسب حروف الفبا نام يكايك صحابه برده شده و سندهايى از حديث غدير راكه به او منتهى مى شود ياد آور شده , و نيز اگر هر سندى از چند طريق است بيان نموده است . پس از طرح هر سلسله اسناد به بحث و بررسى در آن پرداخته و از نظر علمى و رجالى بحث را تمام كرده , به اين صورت كه فرد فرد افراد را مطرح نموده , و در هر كدام ابتدا مدح هاى در او , سپس ذم هاى نسبت به او آورده شده و درآخر نتيجه گيرى نموده است . افرادى كه يكبار توضيحات درباره شان گفته شده تكرار نمى شوند و در هر دفعه كه نامشان مى آيد به مورد اول ارجاع داده شده اند . كتاب همراه با پاورقى هاى مفصل و تحقيقى است . جلد اول كتاب شامل سيزده نفر از صحابه است : 1 ابوهريره : كه حدود يازده تابعى از او نقل كرده اند . 2 اسعد بن زرارة : يك صحابى و يك تابعى از او . 3 انس بن مالك : سه تابعى از او . 4 ابوليلى انصارى : يك تابعى از او . 5 ابوزينب نصارى : يك تابعى از او . 6 ابوفضالهء انصارى , يك تابعى از او . 7 ابوقدامهء انصارى : يك صحابى و دو تابعى از او . 8ابوالهيثم بن التيهان . 9 ابو رافع قبطى . 10 اسامة بن زيد . 11 ابى بن كعب . 12 برء بن عازب : چهر تابعى از او . 13بريدة بن حصيب : يك صحابى و دو تابعى از او . در اينجا جلد اول كه در خطى مؤلف پانصد و سى و دو صفحه همراه با پنجاه صفحه مقدمه است تمام مى شود . باقى جلدها نيز در راه تدوين و تكميل است , و اين كتاب پس از اتمام تحقيقى بسيار مهم و ارزشمند خواهد بود . نكتهء قابل توجه : اين كتاب توسط مؤلف خلاصه گرديده و به نام < شرح أسانيد الغدير > است . 36 تعريب عبقات الانوار ( عربى , خطى ) سيدهاشم عامل , م 1412ق . اين كتاب ترجمه حديث غدير از كتاب < عبقات الانوار فى اثبات امامة الائمة الاطهار ( ع ) > ميرحامد حسين به عربى بدون هيچ تلخيص يا شرحى است . ] ; ّّ 37 تفسير آية تبليغ الاية ( عربى , چاپى ) محمد على بن عناية الله تبريزى ( شيخ الاسلام ) م قرن 11ق , چاپ قم , سال 1415ق . فهرست نسخه هاى خطى كتابخانهء دانشگاه تهران ج 819مجموعهء شمارهء 2144 نكته قابل توجه : اين كتاب در جلد دوم كتاب < ميراث اسلامى ايران > ( قم ) سال 1415ق , صفحهء 161به چاپ رسيده است . فسير التكميل = التكميل ( اردو , چاپى ) در باره ادعا يا عدم ادعاى امامت زيد , گزارش هاى ضد و نقيضى نقل شده است . ( 51 ) در بعضى روايات كه از امام صادق ( ع ) وجود دارد , آمده است كه : ( خدا زيد را رحمت كند , او عالمى درست گفتار بود . ) ( 52 ) ( او مردى با ايمان , عارف , دانشمند و درستكار بود . و اگر زمام امور را به دست مى گرفت , مى دانست آن را به چه كسى بسپارد . ) ( 53 ) ( به خدا قسم عمويم زيد راه شهداى حق را پيمود , راه شهيدانى كه در كنار رسول خدا ( ص ) , على و حسين عليمهاالسلام شربت شهادت نوشيدند . ) ( 54 ) غزني ( پژواک ١٧ ورى ٩٠ ) : په غزني ښار کې د سيند دواړو غاړو ته د يو ميليون امريکايي ډالرو په لګښت د بيارغونې يو شمېر پروژې د وري پر ١٧مه ، پيل شوې . عزيزان من ! بعضى كسان از اسم جهاد مى رمند ! خيال مى كنند كه تأسيس يك كشور ، ايجاد يك تمدّن ، نظم در زندگى ، پيشرفت در زندگى مادّى و معنوى و رفاه مشروع براى انسانها ، با جهاد نمى سازد و جهاد ضدّ اين هاست ! چه خطايى ! چه غلطى ! بدون جهاد ، هيچ چيز به دست انسان نمى آيد ؛ نه دنيا و نه آخرت . بدون جهاد ، در مقابل گرگِ بى دست و پاى بيابان هم نمى شود ايستاد ؛ چه رسد به گرگهاى بسيار بسيار خطرناك دنياى سياست و دنياى اقتصاد و سرپنجه هاى خونينى كه ميليونها انسان را دريدند و نابود كردند و خوردند و بردند ! مگر يك ملت بدون جهاد مى تواند سرش را بالا بگيرد ؟ مگر يك ملت بدون جهاد مى تواند طعم عزّت را بچشد ؟ مگر يك ملت بدون جهاد مى تواند در ميان ملتهاى دنيا شأن و موقعيتى پيدا كند ؟ جای بسم الله . . . وبلاگ اختصاصی هیئت مکتب الحسین ( ع ) حمیدرضاعلیمی . . . سعید شیرین تر از عسل نوای کربلا حمید علیمی و حاج ابراهیم رهبر دلم تنگه غروب کــربلاست . . . نسیــــــــــم نیـــــنوا محب بی بی رقیـــه ( س ) قلـــم دانـــش آمــــــــــوز لحظه دیدار نزدیک است عشــــق حسیـــــن ( ع ) پرسـه در ناســـوت دل دانلود مداحي هاي حميد عليمي و مرحوم سيد ذاكر هیئت بیت الرضــــــا چشم انتظار جمعه ظهور سائــــل فاطمــه الزهرا مجمع الذاکرین بیت اباصالح ( عج ) مشهدالرضا غریــــــــــو دل فطرس دل حمید علیمی بر اساس تاريخ تولد ، درخت مورد نظر رو انتخاب كنين و با كليك كردن روي اون خصوصيات اخلاقي خودتون يا دوستاتون رو پيدا كنين . البته توصيه مي‌كنم اول از خودتون شروع كنين و ببينين چقدر تطابق داره . من براي خودم و چند تا از دوستام امتحان كردم . كاملا درست جواب داد . شما هم امتحان كنين : ( ۸ ) الحسن بن علي - رضي الله عنهما - با اينکه ياوران و لشکرياني داشت و مي ‌توانست جنگ را ادامه دهد اما با معاويه صلح کرد ، و در مقابل برادرش حسين - رضي الله عنه - با اينکه افرادش کم بودند و مى توانست صلح کند و جنگ را رها کند عليه يزيد قيام کرد . پس يکي از دو برادر کارش درست بوده و ديگري کارش اشتباه بوده است ؛ زيرا اگر دست کشيدن الحسن و صلح کردن او با اينکه توانايي جنگيدن را داشت به جا بوده است ؛ قيام حسين بدون آن که قدرتي داشته باشد ، با اينکه مى توانست صلح کند اشتباه است ، و اگر قيام حسين با اينکه توانايي نداشت به حق و به جا بوده است ، صلح کردن الحسن و دست کشيدن او از جنگ با اينکه قدرت داشت اشتباه بوده است ! پ . ن : در مورد گناهانی که آدم در حق دیگران کرده مثلا غیبت یا قضاوت نادرست ، اگه رومون نشه از اون فرد حلالیت بخوایم باید چی کار کنیم که بخشیده بشیم ؟ : ( خوڭخۇ ئائىلە ئوقۇقتۇچىسى دىتالى بالىڭىزنىڭ ۋە سىزنىڭ ئەڭ ياخشى تاللىشىڭىز مۇنبەردە ، رەسىملىك ئۇلانمىنى ئىمزاغا قوشۇپ قويسا بولىدۇ ( يازمىدا ئىچىدە بولمايدىغۈ دەيمەن ) مجموعه اي کامل از نسخه هاي مختلف نرم افزار CATIA ائمه بعد از من 12 نفرند و آخرين آنها مهدي است . این پایگاه متعلق به مرکز فرهنگی درسهایی از قرآن می باشد ما فکر مي کنيم تنها کار مفيدي که در گنگره ي علوم انساني مي تواند اتفاق بيفتد همانست که يک فکري بحال فکر کردن جوينده ي دانش يا طالب علم بکند که در فراگيري علم وابسته به غرب نباشد ، يعني مجبور نباشد طبق منطق آنها فکر کند . در اينکه روش انديشه ما چه در حوزه و چه در دانشگاهمان روش غربيست حاجت به بيان ندارد ، و فراگيري علم يا دانش طبق روش غرب انجام مي گيرد عيان است . - صدق مسئله مهمّ در اين‌جا آن است كه آن حضرت ـ صلّي الله عليه و آله ـ چگونه فهميد كه آنچه بر او وحي شده ، وحي خداوند است نه كلام شيطان ؟ فخر رازي در اين زمينه مي‌گويد : همان گونه كه افراد عادي بشر براي شناخت وحي ، نيازمند معجزه‌اند ، پيامبر نيز براي تشخيص وحي نياز به معجزه دارد ؛ اگر فرشته‌ي وحي براي او معجزه‌اي ارائه كرد ، براي وي ثابت مي‌شود كه آن‌چه دريافت مي‌كند وحي الهي است و بدون ارائه‌ي معجزه ، ثابت نمي‌شود . درباره‌ي فرشته نيز همين سخن را تكرار مي‌كند كه : فرشته‌ي وحي براي اين‌كه بفهمد آن‌چه تلقي و دريافت كرده وحي است نه تلقين‌هاي نفساني و نه وسوسه‌هاي شيطاني ، نياز به معجزه دارد . مش قادرة ما ابقاش صؤيحة . . بحاول ابقى مجاملة شوية . . لكن منافقة اهه ده اللى مش ممكن ابدا على راى الست : ) السيكوباتيين ما قابلتش منهم كتير . . بكتشفهم بدرى بدرى و بلغيهم من حياتى كانهم ما دخلوهاش اساسا الكذب فى كل حالاته و اشكاله و الوانه ضعف . . و انا عمرى ما احب احط نفسي فى موقف ضعف المتناقض منافق برضه بس نفاقه اهون شوية لانه ممكن يعلق على موقف ما بانه مش عاجبه مثلا او ينتقد صاحب الموقف لانه مش شايف الموضوع من نفس الزاوية . . لكن لما يتحط فى نقس الوضع بيرجع يتصرف بنفس الطريقة اللى انتقدها فى الحالة دى هيكون متناقض يعذره جهله و سطحيته خدينى معاكى . . مش عشان انا مثالية لكن عشان ما بعملش غير اللى انا مقتنعة بيه و ده ما بقاش يعجب ناس كتير للاسف الانانى دايما عنده طرقه عشان يعيش فى دور الضحية الغلبانة . . متوقعة ايه من شخص كل العالم بتاعه بيدور حوالين كائن واحد اللى هو نفسه ؟ طبيعى ما تقلقيش كلنا عندنا منهم فى حياتنا ز ږ ړ و د ر ې ی ۍ ے آپنا بابا اپر ركهنا ـ اس بات كو محاورے كے طور پر استعمال كيا جاتا هے ـ كه جب كوئى خاندان يا فرد آپنى هى بات كو اعلى ثابت كرنے كے كوئى بهى كام كرنے كو تيار هوتے هيں ـ اس محاورے كے متعلق جو روايت هے آج وه يەاں لكهتےهيں ـ مگر اگر آپ ابهى جسمانى يا ذەنى طور پر نابالغ هيں تو اسے نه پڑهيں ـ يەاں كلكـ كريں كسى كى دل آزارى ميرا مقصد نهيں كسى پيشے كى ەتكـ نهيں صرف ايكـ استعمارے كے طور پر استعمال كى گئى بات كو دل پر لينے والوں سے پيشگى معذرت ـ هههههههههههههههههههههه هههههههههههههههههههههههههه ههههههههههههههههههه ههههههههههههههههههههه هههههههههههه هههههههههههههه ههههههههههه ههههههههههههه الواضح انه لا يوجد فرق بين الصورتين پناهيان : امروز بايد حرف اصلي ما با مردم عالم دعوت به اسلام باشد شهید ، برترین مجاهد است و شهادت ، عالی ترین مراحل جهاد جهاد ، از خود گذشتن و از خویش بریدن و به حق پیوستن است . جهاد ، خواست خدا را بر خواهش دل مقدم داشتن و آن را نادیده گرفتن است . جهاد ، از جان گذشتن ، از نام گذشتن ، از دوست گذشتن ، از مال گذشتن ، از مقام گذشتن ، از آسایش چشم پوشیدن ، از زن و فرزند بریدن است برای خدا . از برنامه‌هاي شما بسيار تشكر مي‌كنم . تلويزيون سلام براي اظهار حقايق اسلامي و دفاع از أهل بيت عصمت و طهارت ( عليهم السلام ) ، مستند به آيات قرآني به پا خواسته است و روز به روز منحرفين اسلام به درد‌هاي لا علاج گرفتار ساخته است . آنها هر روز كاسه خشم‌شان لبريز مي‌شود كه اين مطلب را از برنامه‌هاي تلويزيوني‌شان مي‌توان به وضوح تماشا كرد . په هېواد کې مې د مافيا نوم اورېده ، خو اوس تعليمي ادارې لکه د ننګرهار د طب فاکولته هم په مافيايي حلقې کې راگير شوې ده ، هيله مند يم چې چارواکي ورته پام وکړي . قضيه غيبت مهدي ، فقط از كانال حكيمه خاتون رسيده است . تحریر : ڈاکٹرحافظ حسن مدنی ، مدیر ماہنامہ محدث ومدیر التعلیم ( جامعہ لاہورالاسلامیہ ) محدث مارچ 2006 ( ( وَلَقَدِ اسْتُهْزِىَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَأَمْلَيْتُ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ) ) ( الرعد : ٣٢ ) " رسولوں كا اس سے پہلے بهى مذاق اُڑايا جاتا رہا - تو ميں كافروں كو ڈہيل ديتا رہا ، پهر ميں نے ان كو اپنى گرفت ميں لے ليا پهر كيسا رہا ميرا عذاب ! ! " اللہ تعالىٰ نے قرآن كريم ميں جابجا كفار كى اس قبيح عادت كا تذكرہ كيا ہے كہ وہ اللہ اور اس كے رسول كا مذاق اُڑاتے ہيں ( المائدة : ٥٧ ) پهر ان سے يہ سوال كيا ہے كہ اللہ اور اس كے رسول ہى تمہيں اس تمسخر كے لئے ملتے ہيں ، تم فكر نہ كرو ، تمہارا انجام عنقريب اس ربّ كے ہاتھ ميں جانے والا ہے - ( التوبہ : ٦٥ ) عائشه نے جب يہ كہا كہ اے معاويہ تم كيسے ہمارے گھر ميں اگئے تو معاويہ نے جواب ديا اپ ہرگز ہم كو قتل نہيں كر سكتى ہيں كيونكہ گھر خانہ امن ہے اور ہم نے پيغمبر اسلام ( ص ) سے سنا ہے كہ خدا پر ايمان ركھنے والا ہرگز گھر ميں قتل نہيں كر سكتا _ اخرشم اين پيام اخلاقي رو داد كه منم اولش بلد نبودم ياد ميگيري " اه . . . . . . . . . . . انا فين . . . بابا ماما انتوا فين " الام : الحمد لله انك صحيتى يا حبيبتى ؟ سلمى : اه ان فين ياامى ؟ الام : انتى اغمى عليك بعد ما رجعت من الجامعه وطلعت الزايده عندك ملتهبه فجبناك على هنا سلمى : الحمد للله على كل حال نوقف شويه نتعرف على سلمى : سلمى بنت عندها 21 سنه فى سنه تانيه طب وهى بنت جميله جدا دحيحه جدا ذات شعر طويل اسود وقوام ممشوق ووجه ملاكى . . بس مكنش حد يقدر يكلمها او يعبرلها عن شعوره اتجاها . وبعد شويه بره اوضه سلمى امر الدكتور المشرف على حاله سلمى متدرب عنده انه يروح يشوف حاله ىسلمى وده اكيد ضمن تدريبه . . . بعد كده راح المتدرب ده واول لما دخل . . . . . . . . . . . اياد : السلام عليكم ( وبعدها بلم فى سلمى اللى اعتبرها ملاك ونايم ع السرير ) الام : وعليكم السلام . . . . . . . بصى يا لومى انا رايحه اجيب قهوه واجى تانى اوكى سلمى اللى كانت برضو مبلمه : ها . . . . . . . . . . . . اوكى يا مامى اياد مكنش عارف يعمل ايه نسى كل حاجه فى الطب للحظه وسلمى كانت مستغربه من انه فى مستشفى كبيره كده ولد صغير كده واموووووووور كده . . . . . . . . . . . . . نوقف شويه نتعرف على اياد : شاب عنده 24 سنه فى سنه رابعه طب بس بيتدرب عند واحد صاحب باباه عشان يضمن شغله بعد الجامعه وعسوووول اوى وطويل وشعره ناعم من الاخر gorgeous و دحيح برضو . اياد راح عشان يمسك ايديها ويجس النبض بس ساعتها وشه احمرر اووووووووى ولما مسك ايديها بقوا هما الاتنن زى الطمطمايه وحسوا احساس غريب اوى . . . . . . . . . . . . . . اياد : لا الحمد لله حضرتك تقدرى تخرجى انهارده ( مع انو مكنش عايز ) سلمى : هو . . . . . . . . . . . . . حضرتك دكتور هنا اياد : هههههههههههه لا انا متدرب هنا بس متخافيش انا شاطر سلمى : اه انا قلت كده برضو وبعد كده دخلت ام سلمى وهما الاتنين قالوا فى نفسهم يا خساره الام : ها ايه الاخبار يا دكتور ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ ؟ اياد : لا يامدام اطمنى خالص الانسه . . . . . . . الام : سلمى اياد : كتقدر تخرج انهارده بس ياريت ترتاح فى البيت على الاقل يومين وتاكل كويس ( اسمك سلمى ده انتى المفروض يكون اسمك قمر ملاك كده يعنى ) و بعد كده خرج وهو سرحان بس الصراحه سلمى تستاهل اما سلمى فاول مره تبلم فى ولد كده مع انو انتوا عارفين انى كليه الطب مليانه واحلى من اياد بس يوضع سره فى ابسط خلقه . . . . . . . . . . . . . . . . . . . وبعد كده خرجت سلمى من المستشفى وارتاحت يومين وراحت الجامعه . . . . . . . سلمى كان ليها صديقه اسمها هاله تعالوا نتعرف عليها : بنت اموره وعسوله ويمكن كمان احسن من سلمى وهما اصدقاء من وهما صغيرين . . . . . . . . سلمى : ازيك يابت واحشانى والله هاله : الحمد لله وانتتى اكتر والله مع انى بكلمك كل دقيقه بس واحشانى اوى سلمى حكتلها على كل حاجه على اللى حصل فى المستشفى وحكايه اياد اللى مكنتش حتى تعرف اسمه . . . . . . . . . . . . . . هاله : اااااااااااه وتقوليلى الزايده هى اللى تعباكى ماااااااااااشى سلمى : خفه يا بت يلا يختى ع المحاضره وراحو ودخلوا المحاضره بتاعتهم وهما فى المحاضره الدكتور بتاعه قالهم انو هيعمل جوله كل اسبوع فى المستشفى بتاعته علشان اللى عايز يتعلم اكتر . . . . . . . . . . . . بس عارفين الدكتور ده مين ده دكتور صاحب المستشفى اللى بيتدرب فيها اياد ^ اوباااااااا ^ طبعا سلمى وهاله هيروحوا . . . . . . . . . . . . . . . . . . ولو عجبتكوا القصه هنشوف هيحصل ايييييييييييييييييييييييه ؟ __________________ بورڈ كے صدر مولانا مرزا محمد اطہر نے وزير اعظم جناب منموہن سنگھ سے كہا كہ چونكہ آپ کا بھی تعلق اقلیتی فرقے سے ہے اور ہم بھی هندوستان میں اقلیت میں ھیں لہذا آپ هندوستان ميں اقليت كے دكہ درد اور انكے مسائل كو آساني سے سمجہ سكتے هيں . اين وصيتنامه در تاريخ بيست و ششم بهمن ماه سال يكهزار و سيصد و شصت و يك هجرى شمسى ( مطابق با اوّل جمادى الاول سال يكهزار و چهار صد و سه هجرى قمرى ) توسط حضرت امام خمينى - سلام اللَّه عليه نگاشته شد و يك نسخه از آن طى پيامى كه در تاريخ 22 / 4 / 1362 ه . ش . به مناسبت افتتاح اوّلين دوره مجلس خبرگان صادر فرمودند ، نزد خبرگان مردم به امانت گذارده شد . بار ديگر پس از انجام تغييراتى توسط آن حضرت ، در پنجمين سالگرد نگارش و تنظيم وصيتنامه ، در تاريخ 19 / 9 / 1366 ه . ش . به دستور ايشان و با حضور حضرت آيت الله خامنه اى ( رئيس جمهور وقت ) ، حجة الاسلام و المسلمين حاج سيد احمد خمينى ، رياست مجلس شوراى اسلامى ، رياست قوه قضاييه ، نخست وزير ، اعضاى مجلس خبرگان ، دبير شوراى نگهبان ، نماينده امام در بنياد شهيد ، تنى چند از روحانيون و اعضاى دفتر امام جلسه اى در محضر حضرت امام تشكيل شد ، پس از بيانات كوتاه آن حضرت ، متن وصيتنامه اصلاح شده در دو نسخه جهت نگهدارى در مجلس خبرگان و آستان قدس رضوى به آقايان تحويل داده شد . سپس كليه ديداركنندگان به مجلس شوراى اسلامى عزيمت كردند و پس از انجام مراحل مهر و موم رسمى وصيتنامه ، نسخه اى از آن توسط فرزند گرامى امام به رئيس مجلس خبرگان تحويل شد و نسخه ديگر نيز در اختيار حضرات آقايان : محمد رضا مهدوى كنى ، مهدى كروبى ، محمد رضا توسلى ، حسن صانعى قرار گرفت تا به موزه آستان قدس رضوى تحويل شود . و در همين جلسه نسخه سابق وصيتنامه موجود در مجلس خبرگان تحويل فرزند امام شد تا به حضرتش عودت دهند . مطلوب كخطوه أولى قصائد صوتيه أو مرئيه لشعراء عنزه التاليه أسمائهم : عايد ضافي الجلوي : الأسمر الجويعان : عبدالله حبيب التشيم : عبدالله مسيب الجروان للمراسله president_president @ hotmail . com فروش سی دی بازی ( آتاری ، میکرو ، سگا ، پلی استیشن ) انواع سی دی های آموزشی ، فیلم های مستند ، سی دی های ورزشی ، و . . . بين سنت‌هاي‌الهي و مهدويت در ابعاد اعتقادي ، اخلاقي ، تربيتي و سياسي ـ اجتماعي پيوند معناداري وجود دارد . اين پيوند ، بدين صورت تبيين مي‌شود كه با توجه به اين‌كه خداوند متعال ، سنت‌هاي خود را به گونه‌اي ترسيم . . . ادامه . . . قعدنا ويا اهلا يا اهلا . . . ويااااااااا مراحب و نيز آمده : ( و هذا لسان عربى مبين ) . لازم كلنا نشارك علشان دى تناتيش قهوة المصريين اللللللللللللللللللللللللللللللللللللللله مره روعه نقش غايي امام در نظام خلقت از منظر روايات عشق آن شب مست مستش کر ش ده بود جديد ترين محصول از سري هواپيماهاي بدون سرنشين شركت بوئينگ بنام Phantom Ray ، اولين پروازش را در مركز تحقيقات هوائي ناسا در پايگاه هوائي ادواردز واقع در كاليفورنيا به فاديا سبط احمد كابيه حيدر من فدي النبي اخاه انسان اگر بخواهد به جايي برسد بايد از مسير ولايت برود . مرحوم « ميرزا علي آقا قاضي » استاد علامه طباطبايي‌ ( ره ) مي‌فرمود : هر كرامت ، مقام و كشفي كه دارم و هر چه برايم حاصل شده از دو طريق بوده است : يكي ؛ توجه به قرآن كريم و ديگري ؛ توسل به ابا عبدالله الحسين‌ ( ع ) . آدرس : تهران - میدان پاستور - خیابان پاستور تلفن : " تين اشياء سے جو كوئى بھى نجات پا گيا وہ كامياب ہوا اورنجات پا گيا ، ميرى موت ، اور خليفہ كو صبركى حالت ميں قتل كرنا ، اور دجال " در تعطيلاتي دردناك هستم . همه را از خودم رنجاندم و خودم در احساس تنهاي و بي گانگي دست و پا مي زنم . سالها دوري از خانواده ايا اين چنين مشگكل دارم كرده و يا از ابتدا چنين بوده ام . با اينكه مي دانم در زندگي تنهاي خودم نيز هيچ هديه اي منتظرم نيست . نمي توانم اين بودن در ميان افراد خانواد را نيز تحمل كنم . احساس عذاب وجدان و خشم پنهانم بر عليه كساني كه بايد دوستشان داشته باشم چنان دچار تناقضم مي كند كه ديوانه مي شوم . و اين تراژدي تكراري هرسال و هر سال و هر سال عيد نا مبارك در استانه سالي نا اميد اہم بات يہ ہے كہ سريانى اناجيل كے متن ميں جو اصل يونانى سے لى گئي ہيں ' ' تسلى دينے والے ' ' كے بجائے ' ' پارقليطا ' ' آيا ہے_اور يونانى متن ميں ' ' پير كلتوس ' ' آيا ہے كہ جو يونانى لغت كے لحاظ سے ' ' لائق تعريف شخص ' ' كے معنى ميں ہے جو ' ' محمد ( ص ) ' ' و ' ' احمد ( ص ) ' ' كا معادل ہے_ زهد فروشي خود عاملي ديگر در رشد و گرايش به مدعيان مهدويت است . آنان ، ميان توده مسلمين كه مقابل تنزل اخلاق و روح دنياپرستي ، يك روحيه منفي به خود گرفته بودند ، مورد تعظيم و احترام قرار مي‌گرفتند و از اين نظر ، اسباب تشويق و دلگرمي و در نتيجه نفوذ معنوي آن‌ها فراهم بود . وهو المنتدي كله أخواتك والله وبيهزروا معاكي مش أكتر از دروازه شیراز به سمت چهار باغ بالا ، بیت العبـاس ( علیه السلام ) تبصره 14ـ هزينه مربوط به تغيير يا تعمير اساسي دارايي قابل استهلاك از زمان انجام هزينه حسب مورد براساس نرخ و كل مدت مقرر در اين جدول براي آن دارايي قابل استهلاك خواهد بود . ویژه نامه " سجاده نشین عرفان " به مناسبت میلاد امام سجاد علیه السلام بگو بدانم ؛ آنچه شما به آن معتقديد ؛ و گمان مى كنيد دهر ( روزگار ) گرداننده موجودات است ؛ و مردم را مى برد ؛ پس چرا دهر آنها را بر نمى گرداند ؛ و اگر بر مى گرداند ؛ چرا نمى برد ؟ همه مجبور و ناگزيرند ؛ چرا آسمان در بالا ؛ و زمين در پائين قرار گرفته ؟ چرا آسمان بر زمين نمى افتد ؟ و چرا زمين از بالاى طبقات خود فرو نمى آيد ؛ و به آسمان نمى چسبد ؛ و موجودات روى آن به هم نمى چسبند ؟ ! . أبو الحمراء - مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وجود روايات و احاديث بسيار در بيان عظمت و شرافت ماه مبارك رجب ، آن را جزو ايام خاص براي انجام اعمال و عبادات مخصوص به خود . . . البته بايستي گفت که اگر اين توسل جستن با اين عقيده همراه شود که الله تعالي حتماً اين دعا را بخاطر شخصي که به آن توسل جسته شده است ، اجابت خواهدکرد . اين عمل تبديل به نوعي شرک خواهد شد که تمام اعمال انسان را برباد خواهد داد . پرهيزگاران در باغها و چشمه سارانند به آنان گويند : با سلامت و ايمني در آنجا داخل شويد ) . توپلىغان QQ ئىپادىلىرىڭىزنى قانداق بىر يولدىلا چىقىرىۋالىمىز ؟ لفظ بلوچ سنسکرت کےدو الفاظ سے مل کر بنا ہے ۔ بل یعنی طاقت اور اچ یعنی بلند ۔ دوسرے معنوں میں اعلی طاقت ور ـ فردوسی کے شاہنامہ میں بلوچوں کا نمایاں ذکر ملتا ہےبلوچ کون ہیں اور یہ کہاں سے آئے ہیں اس کے بارے میں مختلف آراء ہیں ۔ بلوچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کردوں کے ساتھ کیسپئین کے ساحل سے منتقل ہوئے تھے بعض محقق کہتے ہیں کہ بلوچ آریائی نسل سے ہیں جو البرز کے شمالی علاقوں میں رہتے تھے - کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ شام کے علاقہ حلب سے نقل وطن کرکے بلوچستان آ کر بسے تھے اور ان کا تعلق در اصل اسرائیل کے دس گم گشتہ قبائل سے ہے - بعض ریسرچ سکالرز کی رائے ہے کہ بلوچ کیسپئین کے ساحلی علاقہ سے ایران منتقل ہوئے تھے ۔ بلوچی زبان کا تعلق انڈو یوروپین زبان سے ہے اور اس پر فارسی کی گہری چھاپ ہے اس لیے اس رائے میں وزن ہے کہ بلوچ ایران کے راستہ کیسپئین سے بلوچستان آئے تھےبعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ بلوچ لفظ بابل کے مشہور بادشاہ بےلوس سےمناسبت رکھتا ہے ۔ چودہ سو ستاسی میں میر چاکر نے براہویوں کو شکست دے کربلوچوں کی پہلی مملکت قائم کی تھی ۔ ليكن میر چاکر کے رند قبیلہ اور لاشاریوں کے درمیان لڑاييوں نے اس مملکت کو ختم کر دیامغلوں کے زمانہ میں براہویوں نے بلوچوں کا تختہ الٹ کر قلات پر اپنی حکمرانی دوبارہ قائم کر لی ۔ قلات کے ایک طاقت ور خان میر ناصر نے سترہ سو اننچاس سے لے کر اٹھارہ سو سترہ تک حکومت کی اور قلات کی یہی ریاست بعد میں بلوچ قوم کی اہم ریاست بن کر ابھری - ایران میں بلوچوں کاجو علاقہ ەے وه ایرانی بلوچستان کہلاتا ہےجس کا دارالحکومت زاہدان ہے بلوچوں کی آبادی ایران کی کل آبادی کا دو فی صد ہے مشخصه اخلاقي : باهوش رنگ مو : قهوه اي رنگ چشم : قهوه اي تناسب اندام : لاغر رابطه با سيگار : متنفرم قيافه : ديگر رنگ پوست : سفيد بيني : ديگر غيرقابل تحمل : ادم هاي خود گوسفند پندار تخصص : اجرا وب سايت : www . ziziikuchulu . parsiblog . com انجمن گفتگوی بانوان مسلمان ایران | متفرقه صلحاء | سرگرمی ( مدير : henas ) | موضوع : اولين كلمه اي كه بعد از خوندن كلمه قبلي به نظرت ميرسه . . . نمونه سوال ارشد مدیریت دولتیطراحی و ایجاد سازمانها متناسب با عصر اطلاعات [ خواندن ادامه مطلب . . . ] ارسال شده در : نمونه سوالات , نمونه سوالات ارشد تگ شده با : ارشد مدیریت دولتی , دانلود رایگان , سوالات پیام نور ارشد , طراحی و ایجاد سازمانها , طراحی و ایجاد سازمانها متناسب با عصر اطلاعات , مدیریت دولتی , نمونه سوال ارشد , نمونه سوالات دانشگاه پیام نور , نیمسال اول 89 - 90 صلح حديبيہ كے ايك سال بعد صلح نامہ كے مطابق مسلمان عمرہ بجالانے كے لئے تين روز تك مكہ ميں ٹھہر سكتے تھے _رسول خدا ( ص ) لشكر اسلام كے دو ہزار افراد كے ساتھ عمرہ كے لئے روانہ ہوئے پيغمبر اكرم ( ص ) كے ہمراہ صلح حديبيہ اور بيعت رضوان ميں شامل تمام افراد موجود تھے سوائے خيبر ميں شہيد يا اس سے قبل وفات پا جانے والے مسلمانوں كے ، البتہ ك1چھ دوسرے لوگ بھى سفر ميں شريك ہوگئے تھے_ پاریس ویتنی هیلتون وارث امپراتوری چهار میلیارد دلاری هتلهای مجلل هیلتون است ، اما این دختر ۲۴ ساله نه علاقه ای به هتلداری دارد و نه آنچه وی را مشهور کرده است : شهرت . تهران - كارگردان فيلم سينمايي ' جنوب آسماني ' از ساخت موسيقي اين اثر سينمايي در لبنان خبر داد . ' جمال شورجه ' گفت : هم اكنون فيلم سينمايي ' جنوب آسماني ' در مرحله مونتاژ نهايي قرار دارد و اين كاررا حسن ايوبي انجام مي دهد . وي افزود : بخش هايي از اين اثر سينمايي براي ' طاهر ماملي ' موسيقيدان لبناني ارسال شده تا نمونه اوليه موسيقي اين اثر سينمايي در لبنان ساخته شود . اين كارگردان سينما خاطر نشان كرد : حسين مهدوي ، صداگذاري اين اثر سينمايي را پس از ساخت موسيقي آن انجام خواهد داد . شورجه اظهار اميدواري كرد اين فيلم سينمايي براي حضور در بيست و نهمين جشنواره بين المللي فيلم فجر آماده شود . پروژه سينمايي « جنوب آسماني » به كارگرداني جمال شورجه از جمله آثار سينماي كشور با موضوع مقاومت است كه درباره جنگ‌ سي و سه روزه لبنان ساخته مي‌شود . اين فيلم سعي دارد بخشي از رشادت‌ها و مقاومت‌هاي مردم لبنان را در قبال حملات وحشيانه صهيونيست‌ها ، به تصوير كشد . اين پروژه از توليدات مشترك سينماي ايران است كه با مشاركت شركت ريحانه لبنان و بنياد سينمايي فارابي ساخته مي‌شود . پي‌ير داغر ، نسرين طافش ( سوري ) ، كيندا غلوش ( سوري ) ، كارمن لوبوس ، باسم موقنيه ، يوسف الخال و تعدادي بازيگران لبناني و سوريه‌اي از جمله بازيگران اين فيلم سينمايي هستند . عواملاين اثر سينمايي عبارتند از : نويسنده فيلمنامه : علي دادرس ، كارگردان : جمال شورجه ، تهيه‌كننده : مهدي همايونفر ، مديرفيلمبرداري : تورج منصوري ، دستيار اول كارگردان و مديربرنامه ريز : اميرشهاب اسماعيلي ، صدابردار : عباس رستگارپور ، جلوه‌هاي ويژه : محسن روزبهاني ، طراح صحنه ولباس : بابك پناهي ، طراح گريم : كامران خلج ، مديرتوليد : وحيد معدني ، جلوه‌هاي ويژه رايانه‌اي : سيد اميررضا معتمدي ، تدوين : حسن ايوبي ، صداگذاري و ميكس : حسين مهدوي ، منشي صحنه : ندا قائدي ، عكاس : محمدحسن ناحي . اين حديث را ابو جعفر اسكافى در « خلاصه نقض كتاب عثمانيه جاحظ » در ص 29 آورده است ، و هيثمى در « مجمع الزوائد » ج 5 ص 224 و ص 225 به لفظ : من مات و ليس عليه امام فميتته ميتة جاهلية ، و به لفظ : من مات و ليس عليه امام مات ميتة جاهلية آورده است . الحــمد لله على كل نعمــة كانت أو هي كائنــة الحــمد لله على كل نعمــة كانت أو هي كائنــة الحــمد لله على كل نعمــة كانت أو هي كائنــة الحــمد لله على كل نعمــة كانت أو هي كائنــة الحــمد لله على كل نعمــة كانت أو هي كائنــة الحــمد لله على كل نعمــة كانت أو هي كائنــة الحــمد لله على كل نعمــة كانت أو هي كائنــة بديهي است ، ‌با حرمتي كه بويژه اعراب به زن مي‌گذراند ، جلوي يك زن را نمي‌توان به آساني گرفت ، چه رسد به ده هزار نفر زن . آنان در هفتمين روز شهادت امام حسين ( ع ) در كربلا حاضر شدند و در خلال حركت اين گروه كثير ، زنان ناظر و شام و كوفه و قبايل و عشاير اطراف نينوا و قادسيه و كربلا نيز به آنها پيوستند و جمع بسيار انبوهي را تشكيل دادند كه تعداد آنها را تا صد هزار نفر گفته‌اند . زنان مزبور بر سر قبر سيدالشهداء وحضرت عباس ( ع ) سايباني و به عزاداري پرداختنمد و هيچ نيرويي نتوانست از آنها جلوگيري كند . آنان از همان روز هفتم بر مزار سيدالشهداء ( ع ) و اصحاب و ياران وي سايبان و اثر قبري پديد آوردند و يك هفته به عزاداري مشغول شدند . رو بخونییم خیلی واقعیت هایی هست که شاید قلب به هم در مقاله حاضر نويسنده با تشريح فضيلت ماههاي رجب و شعبان به عنوان پيش زمينه ورود به خوان ضيافت الهي ، بر لزوم آمادگي در ماه رجب و اهميت اين ماه تأكيد كرده است كه اينك باهم آن را ازنظر مي گذرانيم . مرحوم سيدابن طاووس در كتاب اقبال الاعمال ( 1 ) خود از وجود مقدس پيامبر " ص " ، روايتي نقل مي كنند كه فرمودند : " ان الله تعالي نصب في السماء السابعه ملكاً يقال له الداعي فاذا دخل شهر رجب ينادي ذلك الملك كل ليله منه الي الصباح ، طوبي للذاكرين ، طوبي للطائعين و يقول الله تعالي أنا جليس من جالسني و مطيع من أطاعني و غافر من استغفرني ، الشهر شهري و العبد عبدي و الرحمه رحمتي فمن دعاني في هذا الشهر أجبته و من سألني اعطيته و من استهداني هديته و جعلت هذا الشهر حبلاً بيني و بين عبادي فمن اعتصم به وصل الي . " ( 2 ) بنابر مضمون اين روايت ، خداوند در آسمان هفتم فرشته اي به نام " داعي " [ فراخواننده ] ( 3 ) قرار داده است كه هرگاه ماه رجب فرا مي رسد ، هر شب تا صبح فرياد مي زند : خوشا به حال ذاكران ! خوشا به حال اطاعت كنندگان ! [ سپس فرشته از قول خداوند مي گويد ] خداوند مي فرمايد : من همنشين كسي هستم كه همنشينم باشد و مطيع كسي هستم كه مرا اطاعت كند و آمرزنده كسي هستم كه از من آمرزش بخواهد . ماه ، ماه من و بنده ، بنده من و رحمت ، رحمت من است ؛ پس هركس در اين ماه مرا بخواند اجابتش مي كنم و هركس از من بخواهد به او عطا مي كنم و هر كس از من هدايت بخواهد هدايتش مي كنم و اين ماه را ريسماني بين خود و بندگانم قرار داده ام كه هر كس به آن چنگ زند به من مي رسد . خداوند اين ماه را رشته اتصال بين خود و بندگان قرار داده است ؛ يك سر اين رشته در اختيار بندگان و سر ديگر آن در محضر الهي است . اگر كسي به اين رشته ، معتصم شود ، به مقام وصول الهي مي رسد ؛ از اين رو ماه رجب ، شهر وصول الي الله است ؛ باطن اين ماه مانند باطن قرآن و معصومين ( ع ) ، ريسمان اتصال بين خداي متعال و مؤمنين است ؛ رواياتي نيز با اين مضمون آمده است كه : ماه رجب ماه اميرالمؤمنين ( ع ) است ، همان گونه كه شعبان ، ماه رسول الله ( ص ) و رمضان ماه خدا است . علت انتساب رجب به اميرالمؤمنين ( ع ) در معناي انتساب ماه رجب به اميرالمؤمنين ( ع ) احتمالات زيادي وجود دارد ؛ به نظر مي رسد همه امور عالم ، ملكوتي دارد كه اين نكته شامل اوقات و زمانها هم مي شود ؛ براي مثال ، شب جمعه فقط يك ظرف طبيعي نيست ، بلكه واقعيتي است كه جايگاه خاصي در عالم دارد ؛ در اين زمان ، ملائكه اي نزول پيدا مي كنند ، خيراتي نازل مي شود و راه هايي به سوي باطن انسان گشوده مي شود . سحر و بين الطلوعين هم همين گونه هستند . اين كه گفته شده است نماز را در اول وقت بخوانيد ، يك " قرارداد " نيست كه تنها با ملاك حركت خورشيد تنظيم شده باشد كه اگر يك ساعت ديرتر شود فرقي نداشته باشد ؛ يعني حركت خورشيد ، براي خود ، مداري داشته باشد و بقيه امور عالم هم مداري داشته باشند ! شب جمعه ، زمان نزول ملائكه و هنگامي است كه درهايي از رحمت گشوده شده و راه هايي باز مي شود ، در ساعت بعد ، اين شرايط و فضا براي قرب فراهم نيست . ماه ها هم اين گونه هستند ؛ يك معناي انتساب ماه رجب به اميرالمؤمنين ( ع ) اين است كه ولايت حضرت در اين ماه تجلي مي يابد و راه درك ولايت در اين ماه گشوده مي شود . در اين ماه مي توان از ولايت اميرالمؤمنين ( ع ) بهره مند و به وادي اين ولايت وارد شد . به عبارت ديگر ، مي توان به شفاعت حضرت امير ( ع ) رسيد ؛ چراكه رجب ، ماه شفاعت ايشان است و حضرت در اين ماه براي هدايت انسان به ولايت خود ، شفاعت مي كنند . بنابراين ، رجب يا ماه اميرالمؤمنين حبلي است كه انسان را به مقام وصول مي رساند . يكي از تجليات ولايت حضرت در باطن اين ماه است . از اين ماه درهايي به سوي درك اين حقيقت [ ولايت ] گشوده شده است . در نتيجه ، اعمال اين ماه ، اعمال بسط قرب و به عبارتي ، راه هايي براي رسيدن به آن حقيقت منتشر شده در اين ماه است . شفاعت پيامبر ( ص ) در ماه شعبان - كه ماه نبي اكرم ( ص ) است - نيز انسان مي تواند با صيام و قيام به شفاعت نبي اكرم ( ص ) برسد ؛ شفاعتي كه طريق اتصال انسان به حقيقت توحيد و قرب وصال است . هيچ كس بدون شفاعت نبي اكرم ( ص ) به درجات قرب نمي رسد . شخصي كه نامش أبوأيمن بود بر حضرت باقر ( ع ) وارد شد و گفت : اي أبا جعفر ! شما مردم را مي فريبيد و به غرور درمي آوريد و دائم مي گوئيد : شفاعه محمد ، شفاعه محمد ! حضرت امام محمدباقر ( ع ) درحالي كه آثار غضب در سيمايشان مشهود شد ، گفتند : " ويحك يا أبا أيمن ! أغرك أن عف بطنك و فرجك ؟ ! أما لو رأيت أفزاع القيامه ، لقد احتجت الي شفاعه محمد ! ويلك ! فهل يشفع الا لمن وجبت له النار ؟ " ( 4 ) واي بر تو اي ابو ايمن ! آيا همين قدر كه شكم و فرج خود را عفيف نگاه داشتي ، در غرور افتادي كه از شفاعت بي نيازي ! سوگند به خدا كه اگر هولها و ترسهاي روز قيامت را ببيني ، هر آينه به شفاعت محمد محتاج خواهي بود ! واي بر تو مگر اين جز كساني را كه آتش بر آنها لازم شده است شفاعت كند ؟ سپس فرمودند : " ما من أحد من الاولين و الاخرين الا و هو محتاج الي شفاعه محمد يوم القيامه " ؛ ( 5 ) هيچ يك از پيشينيان و هيچ يك از پسينيان نيست ، مگر آن كه به شفاعت محمد در روز قيامت ، نيازمند است . [ يعني هر كسي متناسب با درجات خود و به شفاعت نبي اكرم ( ص ) ، حقايق قيامت را درك مي كند . ] ضرورت صيام و قيام در ماه شعبان در روايت ماه شعبان آمده است كه منادي نبي اكرم ( ص ) به دستور حضرت در مدينه ندا مي داد : اين ماه ، ماه من است ؛ من را به روزه اين ماه كمك كنيد . اميرالمؤمنين ( ع ) فرمودند : از وقتي اين ندا را شنيدم روزه اين ماه را ترك نكردم . در حقيقت ، حضرت مي خواهند شفاعت كنند و روزه ، يكي از رشته هاي شفاعت ايشان است ؛ باطن صوم ، ولايت و شفاعت نبي اكرم ( ص ) است ؛ صوم به تنهايي خاصيتي ندارد ، جز اين كه انسان را به شفاعت حضرت نائل كند . ماه نبي اكرم ( ص ) ، ماهي است كه رحمت و رضوان در آن منتشر است . در اين ماه ، مي توان به مقام رحمت و رضوان رسيد . اين رحمت ، رحمت رحيميه يا همان مقام رضوان است ؛ مقامي كه از آثار رحمت رحيميه خداي متعال است . به اين ترتيب ، راه رسيدن به مقام رضوان كه فوق همه درجات بهشت است ، به بركت نبي اكرم ( ص ) باز مي شود . به نظر مي آيد كه صيام و قيام نبي اكرم ( ص ) براي قرب و شفاعت بوده است . هر كس بخواهد به شفاعت حضرت برسد بايد همان صيام و قيام را داشته باشد . با عبادت نبي اكرم ( ص ) درهاي رضوان گشوده مي شود : " بكم يسلك الي الرضوان " ( 6 ) به واسطه نبي اكرم ( ص ) ، مقام رضوان پائين آمده و قابل دسترس شده است . حضرت در روايتي توضيح مي دهند كه اين درخت طوبي شاخ و برگ هاي خود را فرود مي آورد تا مردم به آن متمسك شوند ؛ منظور از اين امر ، در واقع همان شفاعت نبي اكرم ( ص ) است . پس ماه رجب ، ماه اميرالمؤمنين ( ع ) يا به تعبير ديگر مهمانخانه رجب ، مهمانخانه حضرت امير ( ع ) است . اهل الله از اين ماه مي توانند وارد وادي ولايت شوند و پس از آن ، به شهر نبي اكرم ( ص ) كه شهر ضيافت و شفاعت ايشان است ، برسند . سپس ، كساني كه اين دو وادي را طي كنند مقام توحيد و شهرالله را در پيش خواهند داشت كه ضيافتي خاص است ؛ البته آن هم [ وابسته ] به ضيافت نبي اكرم ( ص ) است ؛ هر چند كه بساط ديگري است . ولادت وجود مقدس و مسعود حضرت اميرالمؤمنين ( ع ) در ماه رجب واقع شده و در پايان اين ماه هم " بعثت " نبي اكرم ( ص ) روي داده است . اين دو حقيقت در ماه رجب ، جاري و ساري است و مقدمه ماه شعبان و رمضان هستند . مرحوم آقاميرزا جواد ملكي ( رض ) در رساله المراقبات مي فرمايند : خوب است آقايان اهل علم ، در كنار كسب علم كه خودش نوعي عبادت است ، عبادت هايشان را در اين دو ، سه ماه افزايش دهند ؛ اين ماه فضايي است كه عبادات آن ، آثار خاصي دارد . در اين ماه دعوتي خاص هم آمده است و منادي الهي اين گونه همه را دعوت مي كند : انا جليس من جالسني ، مطيع من اطاعني ، غافر من استغفرني . . . ، مرحوم ميرزا جواد ملكي ( رض ) مي گويند : اگر آدم به اندازه همه خلائق جان داشت خوب بود كه به خاطر تكريم اين خطاب و در استقبال به اين خطاب الهي كه " انا جليس من جالسني و مطيع من اطاعني . . . " جان بدهد ! رجب ، مقدمه ماههاي شعبان و رمضان رجب ، مقدمه شعبان و رمضان است . آمادگي براي ماه رمضان و شعبان بايد از اين ماه حاصل شود . اگر حقيقت ماه رجب درك نشود ، ورود به ماه شعبان و ماه مبارك رمضان مشكل است ؛ بنابراين بايد از مدخل ولايت حضرت امير ( ع ) وارد شد ؛ چرا كه " أنا مدينه العلم و علي بابها " . اميرالمؤمنين ( ع ) ، باب نبي اكرم ( ص ) و باب الله هستند ؛ پس اين ماه ، مدخل است . يكي از اساتيد بزرگ ما مي فرمود : هنگام جواني در شب 72 رجب يا شب غدير در نجف به حرم رفتم ؛ بين الطلوعين شده و سپيده زده بود ، مرحوم آيت الله فكور را ديدم . ( 7 ) مي خواستم به حرم بروم و ايشان در حال خارج شدن بود . مقابل كفشداري شلوغ بود ؛ ايشان كفش را گرفت و در كنار گوش من گفت : من سه روز است جز يك استكان چاي چيزي نخورده ام . به من برخورد ! گفتم يعني چه ؟ يعني اين پيرمرد عابد در خانه حضرت امير ( ع ) مي گويد سه روز است جز يك استكان چايي چيزي نخورده ام ؟ گفتن اين حرف آن هم در كفشداري حضرت امير ( ع ) چه معنايي دارد ؟ داخل حرم ، گوشه اي ايستادم و سه ساعت زيارت غديريه حضرت را خواندم ، خسته شدم و از حرم بيرون آمدم و به منزل رفتم و خوابيدم . در خواب ديدم در حرم حضرت امير ( ع ) هستم ؛ حرم خلوت بود و من هم گوشه اي ايستاده و زيارت مي كردم ، حالتم در زيارت همان حال قبلي بود ، اما ديدم آقاي فكور بين زمين و آسمان با همه وجود ، طواف و زيارت مي كند ؛ نه با زبانش ، همه وجودش طائف و مشغول زيارت حضرت است . متوجه شدم كه آن بزرگوار به من چه گفت : شما دير آمديد ! بين الطلوعين است ، شب مبعث گذشته است ، بايد از قبل مراقبه كنيد . يعني اگر مراقبه اي از قبل نباشد انسان خسته مي شود ؛ اگر انسان تمهيد قواعد نكند ، تا چشم به هم بزند فرصت تمام مي شود . اين دو ماه از يك طرف ، به طور حقيقي و تكويني مدخل ورود رمضان هستند ؛ به نحوي كه بدون اين دو نمي شود وارد رمضان شد . از طرف ديگر ، اين دو ماه بستر و آمادگي براي ورود به ماه رمضان ، و ماه رمضان هم بستر و آمادگي براي ورود به شب قدر است ؛ يعني بايد اين مسير طي شود تا انسان به ليله القدر برسد . ورود به آن وادي ضيافت ، اين دو سه ماه رياضت را به عنوان مقدمه مي طلبد ؛ چرا كه " من عرف فاطمه حق معرفتها فقد ادرك ليله القدر " ؛ ( 8 ) البته مقدمه اش توسل به اميرالمؤمنين ( ع ) و نبي اكرم ( ص ) است ؛ در قلب ضيافت الهي ، معرفت حضرت زهرا ( س ) نهفته است كه انشاءالله اين مقدمات مي تواند زمينه درك آن حقيقت باشد ؛ بايد توجه كرد كه مقام ايشان مقام عجيبي است ، بنابراين لازم است اين وادي طي شود تا انسان به شب قدر برسد . بايد دقت داشت كه " حمد " ، هم در آغاز نعمت و هم در پايان آن ، براي بهره مندي از نعمت لازم است . حمد در آغاز نعمت ، مقدمه شكر و در پايان نعمت كه فرصت ها تمام شده است ، مقدمه استغفار است . حمد مقدمه تضرع و ابتهال و رجاع و تمسك به فضل الهي است . اگر انسان در مدخل ماه رجب ، حامد نباشد و نعمت خدا را نبيند و به اين نعمت كه خداي متعال در اختيار ما قرار داده است ، توجه نكند ، اين نعمت كفران مي شود . اين فرصت ها بسيار مغتنم است . ان شاء الله خداي متعال در اين ماه ها ما را به ولايت اميرالمومنين ( ع ) ، نبوت نبي اكرم ( ص ) و به ضيافت خاص و درك ليله القدر و عيد فطر و بركات آن موفق بدارد . 1 - كتاب اقبال الاعمال به جامعيت كتاب مفاتيح الجنان نيست ولي يكي از كتب مهم محسوب مي شود كه بايد از كتب پركاربرد طلاب و اهل علم باشد ؛ حضرت آيه الله بهجت ( ره ) فرموده بودند كه اگر كسي با اقبال رفيق نباشد با ما رفيق نيست . 2 - سيدبن طاووس ، اقبال الاعمال ، ص 826 . 3 - نام داعي يعني مظهر اين اسم است و اين دعوت ، صرفاً حرف نيست ، بلكه جذباتي از طرف او متوجه اهل راه مي شود و دعوت او ، مظهر دعوت الهي مي باشد . 4 و 5 - تفسير قمي ، ص 935 6 - زيارت جامعه كبيره . 7 - ايشان از علماي ابواب معرفت و آدم فوق العاده اي بودند . بزرگواري نقل مي كرد كه استخاره هاي ايشان خيلي عجيب بود و مرحوم آيت الله بروجردي استخاره هايشان را به ايشان مي دادند . 8 - علامه مجلسي ، بحارالانوار ، ج 43 ، ص 56 و تفسير فرات كوفي ، ذيل سوره قدر . نويسنده : حجت الاسلام سيدمحمد مهدي ميرباقري منبع : روزنامه كيهان 1390 / 03 / 10 دوره پاياني دنيا آخر به بخش پاياني هر مجموعه گفته ، [ 1 ] و زمان در لغت بر وقت كم يا زياد اطلاق مي شود . [ 2 ] و مقصود از آن در اين جا روزگار و عمر جهان است . « آخرالزمان » تركيبي اضافي و به معناي بخش پاياني حيات دنيا است . واژه آخرالزمان در قرآن به كارنرفته ؛ امّا مطالب گوناگوني درباره اين موضوع از آيات قابل استفاده است . قرآن به طور كلّي ، جهانيان را به دو بخش پيشينيان ( الأَوّلينَ ، المُستَقدِمينَ ) و پسينيان ( الأَخِرينَ ، المُستَـخِرينَ ) قسمت كرده است ( واقعه / 56 ، 13 و 39 و 49 ؛ حجر / 15 ، 24 ) افزون بر آن ، آياتي در قرآن از ميراث بري زمين به وسيله صالحان و مستضعفان ، پيروزي نهايي حق بر باطل و گسترش اسلام در سرتاسر جهان سخن مي گويد كه پس از وقوع بلاها و فتنه هاي بسيار محقّق مي شود . ( اعراف / 7 ، 128 ؛ نور / 24 ، 55 ؛ قصص / 28 ، 5 ؛ فتح / 48 ، 28 و . . . ) اين آيات با دوره پاياني دنيا ارتباط دارند [ 3 ] و برخي از نشانه هاي قيامت كه از آن به « اَشْراطالساعة » تعبير شده ( محمد / 47 ، 18 ) نيز در اين بخش واقعند . در روايات و تفاسير ، بسياري از نشانه هاي آخرالزمان از اشراط الساعة نيز شمرده شده است ؛ [ 4 ] از اين رو براي جدايي اين دو موضوع مقاله آخرالزمان به حوادث و تحوّلات اجتماعي در واپسين دوره حيات بشري اختصاص يافته كه معمولا در كتاب هايي تحت عنوان الْمَلاحِمُ والْفِتَن [ 5 ] و كتاب هاي مربوط به غيبت امام زمان [ 6 ] ( عج ) بررسي مي شوند و اشراط الساعة به حوادث طبيعي و دگرگوني هاي كيهاني در آستانه قيامت ، مانند : طلوع خورشيد از مغرب ، پوشيده شدن آسمان از دود ، تاريك شدن خورشيد و ماه و ستارگان ، متلاشي شدن كوه ها و . . . محدود شده است . [ 7 ] تعبير « اليوم الأخر » كه در قرآن فراوان به كار رفته ، با جهان آخرت مرادف و ناظر به اين واقعيّت است كه زندگاني آن جهان ، در پي حيات دنيايي ، سرانجامِ نهايي آن است [ 8 ] ؛ در نتيجه ، اين اصطلاح نيز به بحث « آخرالزمان » مربوط نمي شود . از آن جا كه مفهوم « آخر » نسبي است و در تاريخ انقراض دنيا اختلاف فراواني وجود دارد [ 9 ] و قرآن نيز از تعيين وقتي مشخّص براي آن پرهيز كرده ( لقمان / 31 ، 34 ؛ احزاب / 33 ، 63 و زخرف / 43 ، 85 ) محدوده آخرالزمان به دقّت قابل اندازه گيري نيست ؛ با اين حال ، با استفاده از روايات [ 10 ] مي توان بعثت پيامبر خاتم را سرآغاز دوره « آخرالزمان » دانست [ 11 ] ؛ البتّه در بيش تر روايات ، آخرالزمان به دوره پاياني كه با ظهور مهدي ( عج ) مقارن است ، اطلاق شده است . بشر به مقتضاي حبّ ذات و طبيعت جست و جو گر خود ، همواره به سرانجام دنيا مي انديشيده است . [ 12 ] همه اديان الهي و بيش تر مكاتب بشري ، درباره پايان تاريخ ، اظهار نظر كرده اند . [ 13 ] در همه پيش گويي هاي مربوط به آخرالزمان ، خبرهاي وحشتناك و نگران كننده اي وجود دارد ؛ [ 14 ] ولي اغلب بر اين امر اتّفاق نظر است كه پايان كار بشر ، روشن و سعادت آميز است . [ 15 ] در تمام فرقه ها و مذاهب اسلامي ، كم و بيش سرانجام سعادت مند بشر پيش بيني شده است . [ 16 ] در متون زرتشتي ( از آيين هاي باستان ) به صراحت از دوره طلايي بشر در پايان جهان ياد شده كه به آشوب ها و بلاهاي بسيار مسبوق خواهد بود و با ظهور واپسين منجي ( سوشيانس ) محقّق مي شود . [ 17 ] در آيين هندوان نيز هر دوره انساني به چهار قسمت تقسيم شده كه قسمت چهارم آن ، مظهر غروب و افول تدريجي معنويت اوّليه است و از آن ، به عصر ظلمت ( Kali Yuga ) تعبير مي شود ؛ سپس منجي بشر ظاهر و با فروپاشي جوامع انساني و ازبين رفتن شرارت ها ، دوره اي نو آغاز مي گردد . [ 18 ] در متون بودايي نيز از اين دوره ، سخن به ميان آمده است . [ 19 ] در اديان ابراهيمي ، بيش از آيين ها و مكاتب ديگر بر دوره طلايي بشر در پايان تاريخ ، تأكيد شده است . در عهد عتيق ، برقراري سعادت و عدالت در سرتاسر جهان پيش بيني شده كه به وسيله « مشيح » محقّق مي شود . [ 20 ] در عهد جديد نيز به اين مطلب پرداخته شده [ 21 ] و مكاشفه يوحنا به طور كامل به حوادث ناگوار آخرالزمان ، اختصاص يافته و در پايان آن ، به برقراري صلح و آرامش جهان تحت حاكميت مؤمنان اشاره شده است . [ 22 ] در ميان مكاتب بشري ، پيش بيني « ماركس » از مدينه كمونيستي همراه با كمون نهايي ايجاد شده ، تصويري از جامعه بي طبقه و بي نياز از دولت را ارائه مي دهد . [ 23 ] پيش بيني هاي « رنه گنون » ( عبدالواحد يحيي ) از افول و فروپاشي تمدّن مادّي غرب و ظهور مجدّد حقّ و حقيقت كه با نظر به داده هاي آيين هاي باستان و اديان ابراهيمي ارائه شده خبر مي دهد . [ 24 ] نظريّه پايان تاريخ « فوكوياما » پيروزي نهايي نظام غربي و حاكميّت ابدي آن بر سرتاسر جهان را پيش بيني كرده است [ 25 ] و نظريّه « برخورد تمدّن ها » از « هانتنگتون » جنگ جهاني تمدّن ها و نظم جهاني نوي براساس مرزهاي تمدّني را در پايان اين دوره از جهان ، پيش بيني مي كند . [ 26 ] ديدگاه كلّي قرآن درباره پايان تاريخ ديدگاه قرآن درباره سرانجام بشر ، ديدگاهي خوش بينانه بوده ، پايان دنيا پاياني روشن و سعادت آميز دانسته شده است . سرانجامِ سعادت مند جهان ، همان تحقّق كامل غرض از آفرينش انسان ها است كه چيزي جز عبادت خداوند نخواهد بود : « و مَا خَلَقتُ الجِنَّ والإِنسَ إِلاَّ لِيَعبدونَ . » ( ذاريات / 51 ، 56 ) عبوديّت الهي در سطوح گوناگون فردي و اجتماعي آن ، براساس برنامه ريزي خداوند و در چارچوب اصل اختيار واقع شده و غالب انسان ها از آن بهره مند مي شوند : « وَعدَاللّهُ الَّذينَ ءَامَنوا مِنكُم وعَمِلوا الصَّـلِحـتِ لَيَستخلِفنَّهُم فِي الأَرضِ . . . ولَيُمَكِّننَّ لَهُم دِينَهُم الَّذِي ارتَضي لَهُم و لَيُبدِّلنَّهُم مِن بَعدِ خَوفهِم أَمناً يَعبُدونَنِي لاَيُشرِكونَ بِي شَيئاً » ( نور / 24 ، 55 ) ، « هُو الَّذِي أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدي وَدِينِ الحَقّ لِيُظهِرَهُ عَلَي الدِّينِ كُلِّهِ . » ( توبه / 9 ، 33 ؛ فتح / 48 ، 28 وصف / 61 ، 9 ) [ 27 ] آيات ناظر به آينده جوامع انساني ، بر عنصر خوش بيني در جريان كلّي نظام طبيعت و طرد عنصر بدبيني درباره پايان كار بشر تأكيد ورزيده ، به نوعي فلسفه تاريخ براساس سير صعودي و تكاملي آن اشاره دارد . [ 28 ] از نگاه اسلام ، دين با پشت سر گذاشتن مراحل مختلف ، در كامل ترين شكل خود به بشر عرضه شده : « اَليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دِينَكُم و أَتمَمتُ عَليكُم نِعمَتي و رَضيتُ لَكُم الإِسلمَ دِيناً » ( مائده / 5 ، 3 ) و همواره با انتقال از جامعه اي به جامعه ديگر شكوفاتر مي گردد : « مَنْ يَرتدَّ مِنكُم عَن دِينِه فَسوفَ يأتِي اللّهُ بِقَوم يُحِبُّهم و يُحِبّونَه » . ( مائده / 5 ، 54 ) [ 29 ] خداوند از پيامبران گذشته ، پيمان گرفته كه به پيامبر خاتم ( صلي الله عليه وآله ) ايمان آورده ، به او ياري رسانند ( آل عمران / 3 ، 81 ) بنابراين ، تمام نبوت ها و شرايع پيشين ، مقدمه و پيش درآمد شريعت ختميّه اند . [ 30 ] از ظاهر برخي آيات ، چون « والسَّـبقونَ السَّـبقونَ أُولــئِكَ المُقرَّبونَ . . . ثُلَّةٌ مِن الأَوَّلينَ وَ قَليلٌ مِن الأَخِرين » ( واقعه / 56 ، 10 ـ 13 و 14 ) و نيز بعضي روايات [ 31 ] برمي آيد كه پيشينيان از مردم آخرالزمان ، فضيلت و مرتبه بالاتري داشته اند ؛ [ 32 ] امّا اهل تفسير ، سبقت گرفتگان را پيامبران و اصحابشان دانسته و سبقت را فضيلتي براي اقوام گذشته نشمرده اند ؛ زيرا طبيعي است كه اصحاب پيامبر ( صلي الله عليه وآله ) ، نسبت به تمام پيامبران ديگر و اصحابشان بسيار كم تر باشند ؛ [ 33 ] البته رواياتي نيز حاكي از نسخ آيه مزبور نقل شده [ 34 ] كه درست به نظر نمي رسد ؛ [ 35 ] و به دليل سطح بالاي معرفت مردم آخرالزمان معجزات حسّي اقوام گذشته ، جاي خود را در اسلام به معجزه عقلي و علمي ( قرآن ) داده [ 36 ] و وحي قرآني ، با سخن از قرائت و علم و قلم ، آغاز مي شود : « اِقرَأ بِاسمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الإِنسنَ مِن عَلَق اِقرَأ و رَبُّكَ الأَكرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالقَلمِ عَلَّمَ الإِنسنَ ما لَم يَعلَم » . ( علق / 96 ، 1 ـ 5 ) و قرآن ، از دوره ماقبل اسلام ، به عنوان عصر جاهليت در مقابل عصر علم و خرد ياد مي كند : « الجَـهِليَّةِ الأُولَي » [ 37 ] ( احزاب / 33 ، 33 ) از اين رو ، طبق روايات ، سوره توحيد و شش آيه آغازين حديد ، براي اقوامي در آخرالزمان نازل شده كه در كاوش هاي ديني ، از اقوام پيشين ژرف انديش تر و دقيق ترند . [ 38 ] در روايات متعدد ديگر نيز دوره آخرالزمان و مردم آن ، به رغم وقوع فتنه ها و آشوب هاي بسيار ، بهترين زمان و بهترين مردم شناسانده شده اند ؛ [ 39 ] بنابراين ، ميان ديدگاه خوشبينانه اسلام درباره پايان تاريخ و ظهور آفت هاي اجتماعي بسيار در آن دوره ، هيچ گونه تنافي وجود ندارد . برخي از پيامبران نيز به دليل فضيلت مردم آخرالزمان ، از خداوند خواسته اند كه نام و راهشان در ميان آنان جاويد بماند . ( شعراء / 26 ، 84 ) [ 40 ] قرآن ، امت پيامبر را معتدل ترين و در نتيجه كامل ترين : « و كَذلِكَ جَعلنكُم أُمَّةً وَسَطاً » ( بقره / 2 ، 143 ) [ 41 ] و بهترين امّت : « خَيرَ أُمَّة اُخرِجَت لِلنَّاسِ » ( آل عمران / 3 ، 110 ) معرفي مي كند ؛ [ 42 ] بر همين اساس ، خوارق عادت در آخرالزمان به كمترين ميزان رسيده خداوند از طريق سنتهاي طبيعي تاريخ ، جوامع بشري را با آزمايش هاي مختلف به حدي از بلوغ ، شعور و تجربه مي رساند كه زمينه حكومت جهاني صالحان مهيا شده [ 43 ] و بر اساس سنّت هميشگي خويش ، مؤمنان را بر همه موانع چيره ساخته ، به فتح و پيروزي پايدار مي رساند : « إِنَّهُم لَهمُ المَنصُورونَ و إِنَّ جُندَنا لَهُم الغَــلِبون » . ( صافات / 37 ، 172 و 173 ) [ 44 ] از مجموعه مباحث گذشته مي توان نتيجه گرفت كه دوره اسلامي ، همان دوره آخرالزمان است كه تحقق كامل ديدگاه مثبت اسلام درباره پايان تاريخ ، در عصر ظهور اماممهدي ( عج ) به وقوع خواهد پيوست . نشانه ها و رخدادهاي مهم آخرالزمان ختم نبوت و نزول واپسين شريعت كه با ظهور پيامبر اسلام تحقق يافت ، نخستين نشانه پايان تاريخ به شمار مي رود ؛ [ 45 ] لذا مفسران ، مقصود ازنشانه هاي قيامت رادر آيه ذيل ، بعثت پيامبر ( صلي الله عليه وآله ) دانسته اند كه نسبت به عمر جهان ، فاصله بسيار كمي تا قيامت دارد : [ 46 ] « فَهَل يَنظُرونَ إِلاَّ السَّاعَةَ أَن تَأتِيَهُم بَغتَهً فَقَد جَاءَ أَشراطُها » . ( محمد / 47 ، 18 ) در آخرالزمان وقايع فراوان ديگري نيز پيش بيني شده كه بيش تر به دوره پاياني آن ( مقارن با ظهور مهدي ) مربوط مي شود . 1 . بحران معنويّت : پيش از ظهور امام زمان ( عج ) جوّ حاكم بر جهان ، جوّ ستم ، گناه و فساد خواهد بود . « اِقتَربَ لِلنَّاسِ حِسابُهُم و هُم فِي غَفلَة مُعرِضون . » ( انبياء / 21 ، 1 ) در اين آيه ، مردم آخرالزمان ، به غفلت و اعراض از خداوند ، متّصف شده اند . [ 47 ] در روايات نيز منظور از اشراط الساعة كه در آيه 18 سوره محمد / 47 به آن اشاره شده ، رواج بيش از حدّ كفر ، فسق و ظلم دانسته و موارد متعدّدي از آن بر شمرده شده است . [ 48 ] 2 . وقوع اختلاف ها و درگيري هاي بسيار : يكي از نشانه هاي آخرالزمان ، اختلاف ها و درگيري هاي فراوان ميان گروه هاي گوناگون است : « فَاختَلفَ الأَحزابُ مِن بَينهِم فَويلٌ لِلَّذينَ كَفَروا مِن مَشهَدِ يَوم عَظِيم . » ( مريم / 19 ، 37 ) روايات ، اين آيه را به ظهور فرقه هاي مختلف در جهان اسلام مربوط دانسته اند كه در آخرالزمان پديد آمده ، موجب اختلاف هاي بسيار خواهند شد . [ 49 ] آيه « يَلبِسَكُم شِيَعًا و يُذِيقَ بَعضَكُم بَأسَ بَعض » ( انعام / 6 ، 65 ) نيز به وقوع اختلاف ها و قتل و كشتار در آخرالزمان تفسير شده است . [ 50 ] بر اساس روايتي ، آيه « ولَنبلونَّكم بشيء مِن الخَوف و الجُوع و نَقص من الأَمولِ و الأَنفُس . . . » ( بقره / 2 ، 155 ) به ترس و ناامني ، گرسنگي و قحطي و فقر و كشتار در آخرالزمان اشاره دارد . [ 51 ] 3 . ظهور دجّال : درهرسه دين آسماني يهود ، مسيحيت واسلام ، ظهورفاسدترين ومخرّب ترين جريان منحط در طول تاريخ ، پيش بيني و از خطر آن پرهيز داده شده است . [ 52 ] دجّال كه تجسّم كفر ، فريب و گمراهي است ، در آخرالزمان ظاهر شده ، مردم را به پرستش خويش مي خواند . برخي از مفسّران ، تفسير آيه « لَخلقُ السّموت و الأرض أكبر من خلق النّاس » ( غافر / 40 ، 57 ) را به ظهور دجّال ناظر دانسته اند كه درديد مردم ، عظيم ترين موجود جلوه مي كند ؛ [ 53 ] در حالي كه خداوند ، او را از بسياري مخلوقات ديگر كوچك تر مي شمارد . [ 54 ] سرانجام اين پديده به دست عيسي ( عليه السلام ) محو و نابود خواهد شد . [ 55 ] 4 . وقوع مصائب : برخي از آيات عذاب بر كافران و گنه كاران آخرالزمان كه نزول عذاب را انكار مي كنند ؛ تطبيق داده شده است : « إن أتـكُم عَذابُهُ بَيَـتاً أَو نَهاراً مَا ذَا يَستَعجِلُ مِنهُ المُجرِمونَ » . ( يونس / 10 ، 50 ) « فَإِذا نَزلَ بِسَاحَتهِم فَساءَ صَباحُ المُنذرين » . ( صافات / 37 ، 177 ) [ 56 ] با استفاده از آيه 65 انعام / 6 برخي از اين عذاب ها بدين شرح گزارش شده اند : صدايي هراسناك و دود در آسمان و حاكمان ستمگر « قُل هُو القادِرُ عَلي أَن يَبعَثَ عَليكُم عَذاباً مِن فَوقِكُم » ، فرو رفتن برخي انسان ها در زمين « أَو مِن تَحتِ أَرجُلِكُم » اختلافات بسيار در دين ، « أَو يَلبِسَكُم شِيَعاً » قتل و كشتار « و يُذِيقَ بَعضَكُم بَأسَ بَعض » . در اين دوره زماني ، [ 57 ] ترس و ناامني ، گرسنگي و قحطي و فقر و كشتار نيز بسيار رخ خواهد داد : « وَ لَنبلُونَّكُم بِشَيء مِنَ الْخَوفِ والْجُوعِ و نَقص مِن الأَمولِ وَالأَنفُس . . . . » [ 58 ] 5 . خروج سفياني : بيش تر مفسّران ، از ظهور لشكري طغيان گر كه آخرالزمان در كشورهاي اسلامي به ستم و تعدّي پرداخته ، سرانجام در صحرايي بيرون از مكّه ، گرفتار عذاب الهي مي شوند ، خبر داده و آيه « ولَو تَري إِذ فَزِعُوا فَلاَ فَوتَ و أُخِذوا مِن مَكان قَرِيب » ( سبأ / 34 ، 51 ) را درباره آن لشكر دانسته اند . در روايات شيعه و سنّي ، نام رهبر اين لشكريان ، سفياني ذكر شده است . [ 59 ] آيه « أَفأَمِنَ الَّذينَ مَكَروا السَّيِّـَاتِ أَن يَخسِفَ اللّهُ بِهِمُ الأَرضَ . . . . » ( نحل / 16 ، 45 ) نيز كه توطئه گران را به فرو رفتن در زمين تهديد مي كند ، بر لشكر سفياني تطبيق داده شده است . [ 60 ] آيه « . . . ءَامِنوا بِما نَزَّلنا مُصَدِّقًا لِما مَعَكُم مِن قَبلِ أَن نَطمِسَ وُجوهًا فَنَرُدَّها عَلي أَدبارِهَا » ( نساء / 4 ، 47 ) نيز درباره بازماندگان لشكر سفياني تأويل شده كه صورت هايشان معكوس گشته ، پشت سرشان قرار مي گيرد . [ 61 ] 6 . نداي آسماني : بنابر روايات شيعه ، جبرئيل نخستين كسي است كه با امام زمان ( عج ) بيعت و با صدايي بلند به گونه اي كه به گوش همه جهانيان برسد ، اين آيه را تلاوت مي كند : « أَتي أَمرُ اللّهِ فَلاَ تَستَعجِلُوهُ = فرمان خدا رسيد ؛ پس ديگر شتاب مكنيد » . ( نحل / 16 ، 1 ) [ 62 ] آيه « وَاستَمِع يَومَ يُنادِ المُنادِ مِن مَكان قَريب يَومَ يَسمَعونَ الصَّيحَةَ بِالحَقِّ ذلِكَ يَومُ الخُروجِ » ( ق / 50 ، 41و42 ) نيز درباره اين حادثه ، تأويل شده است . [ 63 ] 7 . ظهور منجي بزرگ بشر : مهم ترين رخ داد آخرالزمان ، ظهور دوازدهمين امام شيعيان براي رهايي انسان ها است : « جَاءَالحَقُّ و زَهقَ البـطِلُ إِنَّ البـطِلَ كانَ زَهوقًا . » ( اسراء / 17 ، 81 ) اين آيه كه از پيروزي چشم گير حق بر باطل سخن مي گويد ، در روايات به ظهور مهدي ( عج ) تأويل شده است . [ 64 ] آيه 148 بقره / 2 ( أَينَ ماتَكونُوا يَأتِ بِكُمُ اللّهُ جَمِيعًا ) نيز بر ياران نخستين مهدي ( عج ) كه خداوند آنان را گرداگرد حضرت حاضر مي سازد ، تطبيق داده شده است [ 65 ] . آيه « فَإِن يَكفُربِها هـؤُلاَءِ فَقَد وَكَّلنا بِها قَومًا لَيسوا بِها بِكـفرين » [ 66 ] ( انعام / 6 ، 89 ) نيز چنين است . 8 . نزول عيسي ( عليه السلام ) : يكي از رخ دادهاي آخرالزمان ، فرود آمدن عيسي ( عليه السلام ) از آسمان است : « و إِنَّه لَعِلمٌ لِلسَّاعَةِ فَلاتَمتَرُنَّ بِها » ( زخرف / 43 ، 61 ) ، « وإِن مِن أَهلِ الكِتـبِ إِلاَّ لَيُؤمِنَنَّ بِه قَبلَ مَوتِهِ . » ( نساء / 4 ، 159 ) مفسّران با استفاده از اين آيات ، ظهور دوباره عيسي ( عليه السلام ) در آخرالزمان را پيش بيني كرده اند [ 67 ] و در روايات نيز تصريح شده كه وي در بيت المقدّس به نماز جماعت امام زمان ( عج ) اقتدا و در جنگ هاي ايشان نيز شركت خواهد كرد . [ 68 ] براساس اين تفسير ، فرود آمدن عيسي ( عليه السلام ) از آسمان ، يكي از نشانه هاي نزديكي قيامت شمرده شده و از ايمان آوردن همه اهل كتاب به حضرت عيسي ( عليه السلام ) در آخرالزمان كه يكي از فرماندهان امام زمان به شمار مي رود ، خبر داده شده است . 9 . خروج جنبنده اي از زمين : قرآن با رمز و ابهام از خروج جنبده اي حكايت مي كند كه هنگام روي گرداني مردم از معنويّت ، از زمين خارج شده ، با مردم سخن مي گويد . [ 69 ] « و إِذا وَقعَ القَولُ عَلَيهِم أَخرَجنا لَهُم دابَّةً مِنَ الأَرضِ تُكَلِّمُهُم أَنَّ النَّاسَ كَانوا بِـَايـتِنا لاَيُوقِنون » . ( نمل / 27 ، 82 ) در تفاسير ، مطالب بسياري درباره اين موجود شگفت بيان شده [ 70 ] كه تا حدّ بسياري غير واقعي و بي اساس به نظر مي رسد [ 71 ] و در ظاهر برگرفته از منابع اسرائيلي است . [ 72 ] 10 . هجوم يأجوج و مأجوج : قومي وحشي و فاسد با تخريب سدّ ذوالقرنين ، در اندك زماني سرتاسر جهان را پر از ظلم و فساد خواهد كرد تا آن كه بنابر روايات ، در عصر ظهور مهدي ، به طور كلّي از بين خواهد رفت . [ 73 ] « حَتَّي إِذا فُتِحَت يَأجوجُ و مَأجوجُ و هُم مِن كُلِّ حَدَب يَنسِلون . » ( انبياء / 21 ، 96 ) برخي ، يأجوج و مأجوج را يكي از نژادهاي انساني ، با صفات ظاهري خاص يا موجوداتي خارق العاده دانسته اند كه از پشت مانعي مادّي خارج شده ، به كشتار مردم و تخريب منابع طبيعي خواهند پرداخت . [ 74 ] برخي ديگر نيز آنان را نمادي از يك تمدّن مادّي مخرّب شمرده اند كه سدّ معنويِ ساخته شده به دست پيامبران را منهدم و حيات طبيعي و معنوي را بر كره زمين تهديد خواهد كرد ؛ [ 75 ] در هر حال ، بيش تر مفسّران با استناد به آيه « وَ تَرَكنَا بَعضَهُم يومَئِذ يَموجُ فِي بَعض و نُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعنهم جَمعًا » ( كهف / 18 ، 99 ) كه بنابر قول مشهور ، به هجوم آنان اشاره داشته و بي درنگ از قيامت سخن به ميان آورده ، آن را از نشانه هاي متّصل به قيامت شمرده اند و سخن از بازگشت برخي اقوام گذشته را هنگام خروج يأجوج و مأجوج مربوط به قيامت دانسته اند : [ 76 ] « و حَرَامٌ عَلي قَريَة أَهلَكنها أَنَّهُم لاَيَرجِعونَ حَتَّي إِذا فُتِحَت يَأجوجُ و . . . . » ( انبياء / 21 ، 95 و 96 ) برخي ديگر ، اين حادثه را به استناد روايات بسيار ، به دوران ظهور مربوط دانسته [ 77 ] و اشاره به بازگشت برخي اقوام را به مسأله « رجعت » ارتباط داده اند . [ 78 ] 11 . رجعت : در آخرالزمان برخي از نيكوكاران و بدكاران زمان هاي گذشته ، دوباره زنده مي شوند . « وَ يَومَ نَحشُرُ مِن كُلِّ أُمَّة فَوجاً مِمَّن يُكَذِّبُ بِـَايـتِنا . » ( نمل / 27 ، 83 ) اين آيه فقط به برانگيخته شدن عدّه اي از مكذّبان و نه همه آن ها اشاره كرده ؛ بدين جهت ، روايات و مفسّران شيعه ، ميان مصداق اين آيه و قيامت ، تفاوت قائل شده و آيه را به آخرالزمان مربوط دانسته اند كه عدّه اي از نيكوكاران و بدكاران اعصار گذشته ، زنده شده ، هر يك نتيجه دنيايي اعمال خويش را خواهد ديد . [ 79 ] مرگ و زندگي دوباره : « رَبَّنا أَمَتَّنا اثنَتَينِ و أَحيَيتَنَا اثنَتَينِ » ( غافر / 40 ، 11 ) ، [ 80 ] عذاب پيش از عذاب بزرگ : « و لَنُذيقَنَّهُم مِنَ العَذابِ الأَدنَي دُونَ العَذابِ الأَكبَر » ( سجده / 32 ، 21 ) ، [ 81 ] ظهور بندگان پيكارجو پيش از قيامت : « فَإِذا جاءَ وَعدُ أُولـهُما بَعَثنا عَلَيكُم عِباداً لَنا أُولِي بَأس شَديد » ( اسراء / 17 ، 5 ) ، [ 82 ] ميثاق پيامبران با خداوند براي ايمان آوردن و ياري رساندن به پيامبراسلام : « و إِذ أَخَذَ اللّهُ مِيثـقَ النَّبِيّينَ . . . لَتُؤمِنُنَّ بِه و لَتَنصُرنَّهُ » ( آل عمران / 3 ، 81 ) [ 83 ] و منّت الهي بر مستضعفان تاريخ : « و نُريدُ أَن نَمُنَّ عَلَي الَّذينَ استُضعِفوا فِي الأَرضِ و نَجعلَهُم أَئِمَّةً و نَجعَلَهُم الورِثين . » ( قصص / 28 ، 5 ) [ 84 ] همگي به رجعت ، تفسير و تأويل شده اند ؛ با اين حال در تفسير آيات پيشين ، آراي ديگري نيز گفته شده است . [ 85 ] 12 . صلح و آرامش پايدار در سرتاسر جهان : پس از پيروزي حضرت مهدي ( عج ) و يارانش ، آرامش و معنويّت بر جهان حاكم خواهد شد : « وَعَدَ اللّهُ الَّذينَ ءَامَنوا . . . وَ لَيُبدِّلَنَّهُم مِن بَعدِ خَوفِهِم أَمناً . . . . » ( نور / 24 ، 55 ) ، « إِنَّ الأَرضَ لِلّهِ يُورِثُها مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ و العـقِبَةُ لِلمُتَّقين » ( اعراف / 7 ، 128 ) ، « و قـتِلوهُم حَتَّي لاَتَكونَ فِتنةٌ و يَكونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه » ( انفال / 8 ، 39 ) ، « لِيُحِقَّ الحَقَّ و يُبطِلَ البـطِلَ . » ( انفال / 8 ، 8 ) اين آيات و آيات ديگر كه از ميراث بري صالحان و مستضعفان و جانشيني آنان در زمين ياد مي كند ( انبياء / 21 ، 105 و اعراف / 7 ، 137 و قصص / 28 ، 5 ) همگي بيان گر اين واقعيّتند كه سرنوشت اين جهان ، پس از جهادي الهي به امامت امام زمان ( عج ) سرانجام به دست مؤمنان افتاده و جهانيان همگي در سايه حكومت حضرت در صلح و معنويّت به سرخواهند برد . [ 86 ] افزون بر اين ، تحقّق كامل آيات « وَ لَه أَسلَمَ مَن فِي السَّمـوتِ و الأَرضِ » ( آل عمران / 3 ، 83 ) و « يُحيِ الأَرضَ بَعدَ مَوتِها » ( حديد / 57 ، 17 ) و « اليَومَ يَئِسَ الَّذينَ كَفروا مِن دِينِكُم فَلاتَخشَوهُم وَ اخشَون » ( مائده / 5 ، 3 ) و « يَومئذ يَفرُح المؤمِنونَ بِنَصرِاللّهِ . . . » ( روم / 30 ، 4 و 5 ) نيز در اين دوره زماني دانسته شده است . [ 87 ] در آن هنگام ، همه نعمت هاي آسمان و زمين بر آن ها نازل و از آسايش و سعادت كامل بهره مند خواهند شد : « لَفَتحنَا عَليهِم بَركـت مِنَ السَّماءِ والأَرضِ . . . . » ( اعراف / 7 ، 96 ) [ 88 ] چون اين مردم در سايه حكومت حضرت مهدي به بالاترين حدّ رشد و بلوغ مي رسند ، بدين ترتيب ، خلافت انسان بر زمين به كامل ترين حدّ خود خواهد رسيد ؛ در عين حال ، وجود مقدّس امام معصوم ( امام مهدي يا امامان ديگر هنگام رجعت ) تا قيامت در دنيا حضور داشته ، جامعه انساني هيچ گاه از حضورشان بي نياز نمي شود . [ 89 ]

Download XMLDownload text